یہ سب نون لیگ کا اپنا ہی کیا دھرا ہے

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی جانب سے جو فیصلہ سنایا، اس فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں ۔اس فیصلے کی روشنی میں چوھدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھا چکے ہیں ,لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ن لیگ اور پی ڈی ایم کے ہاں صف ماتم بچھ چکی ہے۔نواز شریف کے مطابق پاکستان کو تماشا بنا دیا گیا  ہے ۔مریم نواز کے مطابق عمران خان کا خط حلال اور چودھری شجاعت کا خط حرام قرار پایا ۔پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ججز تقرریوں اور پروموشنز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دے دی۔میں سمجھتا ہوں کہ ہرشخص کی وفاداری کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ضرور ہے لیکن ایسا کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا کہ اپنے حق میں فیصلے پر سپریم کورٹ زندہ باد اور جب فیصلہ خلاف آئے تو سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر نے  کے بار ے میں سوچنے لگیں ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ کوئی ملک کفر کی حالت میں تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن نہ انصافی کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے موت کا باعث بنتی ہے ۔پی ڈی ایم اور نون لیگ کے سرکردہ لوگ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر مرنے مارنے پر اتر آئے ہیں۔ وہ شاید بھول رہے ہیں کہ ان کی اتحادی حکومت کا وجود میں آنا بھی عدالت عظمی کے ایک فیصلے کی وجہ سے ہے۔اگر عدالت عظمی کے جج صاحبان 9 اپریل کو رات بارہ بجے سپریم کورٹ میں نہ بیٹھتے تو تحریک انصاف کے لوگ عد م اعتماد کو کبھی کامیاب نہ ہونے دیتے ۔ اس  فیصلے پر عمران خان اپنے جلسوں میں کھلے عام تنقید کرتے رہے ہیں کہ میں نے کونسا جرم کیا تھا کہ رات بارہ بجے عدالتیں لگ گئیں ۔بلکہ 9 اپریل 2022ء کے تفصیلی فیصلے میں صدر پاکستان ، وزیر اعظم عمران خان ، سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر قو می اسمبلی کو آئین شکن قرار دیا گیا ہے ،ہونا تو چاہیے تھا کہ موجودہ حکومت سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ بالا چاروں افراد کے لیے آئین کی دفعہ چھ کا نفاذ کرتے ہوئے گرفتار کرتی اور ان کے خلاف اس وقت سپریم کورٹ میں مقدمات چل رہے ہوتے ۔ لیکن شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کراسکی ۔جبکہ 2014ء کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ، ریڈیو پاکستان اور وزیراعظم سیکرٹریٹ پر عمران خان کی قیادت میں جس ہجوم نے سرکاری املاک پر حملہ کرکے نقصان پہنچا یا تھا ، نون لیگ اس مقدمے کی پیروی بھی نہ کرسکی اور عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی سمیت تحریک انصاف کے تمام سرکردہ  رہنما عدم پیروی کی وجہ سے بری ہوگئے ۔25 مئی 2022ء کو پشاور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے دوران ریڈ زون میں جو توڑ پھوڑ ہوئی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس عمران خان اپنے ساتھیوں سمیت ریڈ زون میں پہنچ کر جذباتی تقریریں کرتے رہے ، اس حوالے سے بھی سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جاتا تھا ۔ چند دنوں کی بازگشت کے بعد وہ مقدمہ بھی اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔اب ہم آتے ہیں ضمنی الیکشن کی طرف ۔ جب نون لیگ اور پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو علم تھا اگر پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کو قائم رکھنا ہے تو ضمنی الیکشن میں دس سے پندرہ سیٹیں جیتنا بہت ضروری ہے ۔ پھر سوائے مریم نواز کے لیگ کے باقی رہنماء وزارتوں کا مزہ کیوں لیتے رہے۔ میری رائے میں نون لیگ کے قائدین کی یہ سب سے بڑی غلطی اور تکبر کا اظہار تھا جو ان کی گردنوں کو عوام کے سامنے جھکنے سے روکتا رہا۔ شنید ہے اب پنجاب میں گورنر راج اور عدالتی اصلاحات کے بارے میں بھی سوچا جارہاہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نواز شریف کے بعد ن لیگ یتیم ہوچکی ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں۔ نون لیگ کے کسی بھی رہنما ء نے عوام اور کارکنوں سے رابطہ رکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور اگر کوئی بھول کرقائدین کے پاس اپنے کسی جائز کام کروانے کیلئے پہنچنے کی غلطی بھی کر گیا تو قائدین نے وہ جائز کام کرنے کی بجائے اپنی گردنوں میں خم پیدا نہیں ہونے دیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے۔ اس پر تنقید کرنے اور آنسو بہانے کی بجائے مستقبل میں نون لیگ اور پی ڈی ایم کو عوام سے اپنے رابطوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن