بھاری بجلی بلوں سے پریشان عوام سراپا احتجاج
بجلی کے بلوں میں جس طرح نت نئے مرئی اور غیر مرئی ٹیکس لگا کر ان کو صارفین کی جانوں کے لیے خطرناک بنایا جا رہا ہے اس سے تو واقعی ان بجلی کے بلوں کو چھوتے ہی تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور یہ بجلی بل بزبان حال
بجلی بھری ہے میری انگ انگ میں
جو مجھ کو چھوئے گا وہ جل جائے گا
کی عملی تفسیر بن کر صارفین کے خرمن پر بجلیاں گرا رہے ہیں۔ اس وقت پورا ملک بجلی کی قیمت میں آئے روز اضافے کی وجہ سے سراپا احتجاج ہے۔ عام 2 کمرے کے گھروں کا بل بھی 5 تا 7 ہزار سے کم نہیں آتا۔ لگتا ہے حکومت بجلیاں گرا گرا کر غریبوں کو خاک میں ملانے کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی صاحب انصاف صاحب اقتدار ایسا نہیں جو غریبوں کو جلا کر خاک کرنے والے ان کے آرام و سکون کے دشمن ان بلوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے۔ بڑی بڑی کوٹھیوں، بنگلوں ، دکانوں، تجارتی مراکز پر جتنا ٹیکس لگائیں وہ ان بجلی چور مافیاز کے لیے کم ہے۔ مگر یہ چھوٹے چھوٹے گھروں پر بجلی گرانا کہاں کا انصاف ہے۔ امرا اور فقرا کے لیے بجلی کے الگ الگ ریٹس ہونا ضروری ہیں تاکہ یہ ناانصافی ختم ہو ویسے بھی جب تک محکمہ بجلی چوری پر قابو نہیں پاتا بجلی چوروں کی سرپرستی سے باز نہیں آتا اور مفت بجلی کی سہولت اپنے محکمہ کے ملازمین کو یا اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو ختم نہیں کرتا بجلی کا بحران ختم تو یا کم ہی نہیں ہو سکتا۔ یہ بعداز ریٹائرمنٹ 300 یونٹ یا 500 یونٹ مفت بجلی کی فراہمی عیاشی ہے غریب قوم اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس سال جون اور جولائی کے بجلی بل دیکھ کر تو لوگ صدمے سے مر رہے ہیں۔ انہیں فی الفور ریلیف دیاجائے ، اقساط 2 سے 4 کی جائیں تاکہ وہ بجلی بل ادا کر سکیں۔
٭٭٭٭
نواز شریف نے پارٹی کو حکومت چھوڑنے کے لیے 18 اگست کی ڈیڈی لائن دیدی
میاں جی کے اس بیان پرسب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا کہنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ اب تک جو کچھ ہوا اس کے بعد حکومت رکھنا یا چھوڑنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جو نقصان ہونا تھا ہو چکا مسلم لیگ (ن) والوں کو اس کا اندازہ ضرور ہو گیا ہو گا۔ خاص طور پر پاکستان میں رہنے والے عہدیدار اور کارکن بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا ہے۔ کس طرح جہاندیدہ لوگوں نے نمک کی بنیادوں پر قائم محل میں گھس کر اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ میاں جی تو شاید شروع سے ہی اس کے خلاف تھے مگر پی ڈی ایم اتحاد نے جو سبز باغ دیکھے تھے وہ خدا جانے کس نے دکھائے تھے۔ اب تو یہ حال ہے کہ جنہوں نے اس مقام پر لایا یا پہنچایا وہ کس طرح اپنا دامن چھڑا پائیں گے۔ پی ڈی ایم میں تین بڑی جماعتیں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) مگر دیکھ لیں اقتدار کا مزہ سب لوٹ رہے ہیں اور عوامی ردعمل کاسامنا اور گالیاں مسلم لیگ (ن) کو پڑ رہی ہیں۔ شاید اس لیے اب بڑے میاں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور اب انہوں نے دروغ برگردن راوی اپنی پارٹی کو حکومت کو چھوڑنے کے لیے 18 اگست کی ڈیڈی لائن دے دی ہے۔ جس پر مشکل ہی عمل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس طرح کیا بھی گیا تو پارٹی کی جو ساکھ تباہ ہوئی اس کا ازالہ کون کرے گا۔ اب تو پنجاب میں بھی مقابلے کے لیے حریف سامنے آ رہے ہیں۔ باقی صوبوں کی بات چھوڑیں پنجاب تو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تھا۔ ایسا کوئی جادوئی چراغ شاید شہباز شریف کے پاس بھی نہیں کہ راتوں رات سب مسئلے حل کر کے وہ اطمینان سے چین کی بنسری بجائیں۔
٭٭٭٭
بغیر ڈرائیونگ لائسنس اور ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں کو 2 ہزار جرمانہ ہو گا
یوں تو پہلے ہی ٹریفک قوانین کے مطابق ہیلمٹ کے بغیر یا لائسنس کے بغیر موٹر سائیکل چلانا جرم ہے اس پر جرمانہ بھی ہے۔ مگر آج تک اس قانون پر عمل کتنا ہوا۔ کتنے لوگ قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ ذرا سڑکوں پر دیکھیں تو وردی والے جڑواں بھائی پولیس اور وکیل سب سے زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے نظر آئیںگے۔ نہ وہ ہیلمٹ کی پابندی کرتے ہیں نہ لائسنس رکھنے کی۔ پولیس والے بھائی تو تین کی سواری بھی جائز سمجھتے ہیں۔ کیا وردی یا کالا کوٹ پہن کر انہیں استثنیٰ مل جاتا ہے کہ لائسنس اور ہیلمٹ کے بغیر ٹریفک قوانین کو روندتے ہوئے دوڑتے پھریں۔ اس کے علاوہ شاید موٹر سائیکل پر لگے عقبی شیشے تو یادرفتگان بن چکے ہیں۔ یہ اس سواری کا لازمی حصہ ہیں تاکہ بائیک چلانے والے کو دائیں بائیں پیچھے سے آنے والوں کا پتا چل سکے۔ یہ شیشے نہ لگانا بھی جرم ہے۔ مگر پورے لاہور میں شاید یہ چند ہی موٹر سائیکلوں پر یہ لگے نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ کم عمر ڈرائیوروں کا بھی علاج ضروری ہے یہ 10 تا 12 سال کے لڑکے جو سڑکوں پر فراٹے بھرتے نظر آتے ہیں ان کو بھی قابو کرنا ہو گا۔ ان کے ساتھ ان کے والدین پر بھی جرمانہ کرنا ہو گا جو ان کم عمر بچوں کو موٹر سائیکل چلانے کی اجازت دیتے ہیں۔ بہرحال اب یہ اچھا کام ہے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی خواہ کوئی بھی کرے اس پر بھاری جرمانے کر کے ہی اس بدنظمی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کسی دردی والے یا کوٹ والے کو یا سرکاری نمبر پلیٹ والے کو رعایت نہیں ملنی چاہیے۔
٭٭٭٭
دبئی میں جائیدادوں کی خریداری۔ پاکستانی آٹھویں نمبر پر آ گئے
ایک طرف عرب ممالک میں کام کرنے والے نچلے طبقے کے مزدوروں کی چھوٹے چھوٹے کام کرنے والوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان پر پے درپے ٹیکس لگا کر ان کی آمدنی کا بڑا حصہ وہاں کی حکومت اور کفیل ہڑپ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کے آہستہ آہستہ نہیں نہایت تیزی سے پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ وہ دور گئے جب لوگ دبئی کا ویزہ ملنے پر ڈھول بجاتے تھے۔ اب تو وہاں کام کرنے والوں کا بینڈ بج رہا ہے اور وہ واپس آنے کا سوچنے لگے ہیں۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ پاکستان میں دو نمبری سے مال کمانے والے ناجائز طریقے سے اپنے دھن دولت میں اضافہ کرنے والے اب بڑی تیزی سے دبئی میں جائیدادیں خریدنے لگے ہیں۔ پہلے صرف سیاستدان بیوروکریٹس ، اعلیٰ سرکاری عہدیدار، تاجر ، صنعتکار ہی جو بہتی گنگا میں اشنان کرتے تھے وہی دبئی میں گھر پلازے بناتے تھے۔ وہاں کے بنکوں میں آج بھی ان لوگوں کے اربوں روپے جمع ہیں۔ اب تو نئے دولتیے بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں گیا زمانہ آ گیا ہے۔ کماتے پاکستان میں ہیں اور لگاتے دبئی یا یورپ میں ہیں۔ ایسے لوگوں پر کون اعتبار کرے جو اپنے وطن سے وفادار نہیں۔ اب لاکھ کوئی وطن کی عزت و حرمت کا سرحدوں کا عوام کی محبت کا دعویٰ کرے۔ عملی طور پر وہ اپنے گھر والوں کے لیے پاکستان سے باہر ہی جنت بنانے پر یقین رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ یہاں کے عوام کی زندگی کو دوزخ بنا کر بیرون ملک اپنی جنت بناتے پھرتے ہیں۔
٭٭٭٭
پیر 2 محرم الحرام، 1444ھ،یکم اگست 2022 ء
Aug 01, 2022