اگست کا آخری ہفتہ!!!!

Aug 01, 2022

بہت خبریں ہیں، ایک خبر یہ بھی ہے کہ حکومت نے پیٹرول سستا کر دیا ہے لیکن جتنا مہنگا کیا ہے اس کے بعد تین روپے فی لیٹر کم کرنے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا البتہ باتیں کرنے کی حد تک یہ ایک دلیل ضرور ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ پیٹرول فی لیٹر تین روپے سستا کرنے سے عام آدمی کو سہولت ملے گی۔ ویسے بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والی مہنگائی نے عام آدمی کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ پہلے بجلی جانے سے خوف آتا تھا اب بجلی کا بل آنے سے خوف آتا ہے۔ دو وقت کی روٹی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ پشاور میں بیس کلو آٹے کا تھیلا ایک ہفتے کے دوران ڈیڑھ سو روپے تک مہنگا ہوگیا۔
بیس کلو مکس آٹے کا تھیلا اٹھارہ سو سے بڑھ کر انیس سو پچاس روپے جبکہ فائن آٹا انیس سو روپے سے بڑھ کر دو ہزار پچاس روپے کا ہو گیا ہے۔ یہ صرف ایک چیز کی مثال ہے باقی چیزیں بھی اسی حساب سے مہنگی ہوتی جا رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ ٹی وی پر آتے ہیں وہ جو نقشہ پیش کرتے ہیں معاملات اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ وہ جن کو بھی ذمہ دار ٹھہرائیں ان کے موقف میں وزن موجود ہے لیکن جو کچھ شوکت ترین بتاتے ہیں اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے اور اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کے یہ مسائل سیاسی بحران اور عدم استحکام کی وجہ سے ہیں۔ ڈیفالٹ کا بہت شور ہے، ہر روز ماہرین اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض امید دلاتے ہیں، بعض کے نزدیک ڈیفالٹ کے خطرات ہیں میرے خیال میں ٹیکنیکلی ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ دراصل ہماری بچت صرف اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہے اور دنیا میں اگر کہیں سے ہمیں مدد مل رہی ہے تو اس کی وجہ ہماری جغرافیائی حیثیت ہے۔ معاشی حالت بری ہے، سیاسی حالات بدتر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ جغرافیائی حیثیت کب تک ہمارے کام آئے گی اگر ہم نے معاشی طور پر مضبوط ہونے کے لیے کام نہ کیا تو مشکلات میں اضافہ یقینی ہے۔ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سیاسی استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب سیاست دان قومی مسائل پر اتفاق رائے نہ کریں، قومی مسائل پر ذاتی اختلافات اور سیاسی مخالفتوں کو بنیاد نہ بنائیں۔ اگر ہم کچھ سیکھنا چاہیں موجودہ سیاسی حالات ہمارے لیے ایک سبق ہیں۔
سننے میں آ رہا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے اور اسے معمول پر لانے کے لیے کام شروع ہو گیا ہے جن لوگوں نے یہ کام شروع کیا ہے وہ لائق تحسین ہیں اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ملک و قوم کے لیے بہت اچھا ہو گا۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو پھر رواں ماہ کے آخری ہفتے میں بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے۔ اگر یہ مصالحت، مفاہمت یا بہتر فیصلہ سازی کچھ بھی کہیں کامیاب ہوتی ہے تو پھر اگست کے آخری ہفتے میں ملک میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی ملاقاتیں شروع ہو جائیں گی۔ ان ملاقاتوں کا ہدف ملک کو سیاسی بحران سے نکالنا ہو گا۔ اس ضمن میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان نے پنجاب اسمبلی کے اراکین سے ملاقات اگست اور ستمبر عام انتخابات کے واضح اشارے دیے ہیں۔ انہوں نے پارٹی عہدیداروں کو نئے انتخابات کی تیاری کے لیے ذمہ داریاں بھی دی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کو دو ہفتوں میں تنظیم سازی مکمل کرنے کا ٹاسک بھی دیا ہے۔ یہ خبریں بلاوجہ نہیں ہیں اس حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاست دان کیا فیصلے کرتے ہیں اگر تو ملکی مفاد کو اہمیت نہ دی گئی تو حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔ موجودہ حکمرانوں نے چند ماہ میں جو فیصلے کیے ہیں ان کی وجہ سے شدید عوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکمرانوں کے فیصلوں کو عوام میں پذیرائی نہیں ملی۔ بالخصوص زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاءکی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے ہر دوسرے شخص کو متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کسی اور انداز میں سوچ رہی ہے۔ حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کی جائے، اس دوران انتخابات ہوں اور نئی حکومت قائم ہو اور پھر نئی حکومت کچھ وقت آرمی چیف کے ساتھ مل کر بنیادی مسائل حل کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے بعد آئندہ برس نئے چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر کرے جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف اس حق میں نہیں وہ مکمل طور پر مختلف انداز میں سوچ رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اتفاق رائے کس پر ہوتا ہے، کس طرح ہوتا ہے اور تمام بڑی سیاسی جماعتیں کس نکتے پر اتفاق کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں۔ سیاسی ورکر بہت متحرک ہیں، گلی گلی نعرے لگ رہے ہیں، لوگوں میں عدم برداشت بڑھ رہا ہے بالکل اسی طرح سیاسی جماعتوں کی اہم شخصیات کے مابین بھی تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں درجہ حرارت میں کمی صرف اس صورت ممکن ہے جب الزامات اور غیر ضروری بیانات سے گریز کیا جائے جیسے شہباز گل نے شاہد خاقان عباسی پر الزامات عائد کیے ہیں اس طرح تو حالات بہتر نہیں ہوں گے یا جس طرح کی خبریں پنجاب اسمبلی سے آ رہی ہیں یا وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے سننے کو مل رہی ہیں اس طرح سیاسی عدم استحکام ختم نہیں ہو گا۔ ملک کے ساتھ بہت کھیل ہو چکا ہے سیاسی جماعتوں کو اب آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ روز روز کے بیانات سے نکل کر کچھ ملک و قوم کے لیے بھی سوچنا ہو گا۔

مزیدخبریں