5 اگست: جب بھارت نے کشمیر کی شناخت چھین لی

یہ کوئی  عام بات  یا حرکت نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔جس نے ہر کشمیری کو بلکہ کشمیر کو متاثر کیا۔ 5 اگست 2019ء سے پہلے کے کشمیر کو دیکھ لیں اور آج کے بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو دیکھ لیں فرق صاف نظر آئے گا۔ پہلے جہاں لوگوں میں جنون شررفشاں تھا آج وہاں احتیاط غالب آگیا ہے۔ لوگ کھل کر احتجاج  کی بجائے بھارت سے آزادی کے نعروں کی جگہ اپنے مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں۔ مگر اس کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ بھارت کشمیر میں آزادی کی خواہش اور آواز کو دبانے میں کامیاب ہو گیا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔ 1989ء سے 2023ء تک تحریک آزادی کشمیر میں بے شمار ایسے مراحل آئے جب لگتا تھا بھارت بس چند دن کا مہمان ہے۔ غلامی کے چند دن رہ گئے ہیں۔ اسی طرح ایسے مراحل بھی آئے کہ جب پوری وادی میں موت کے سناٹے جیسی خاموشی  اور تحریک دبتی ہوئی نظر آئی۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا  یہ سب مراحل تحریکوں میں آتے رہتے ہیں دنیا میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی تحریک مسلسل یکساں رفتار سے جاری رہی ہو۔ اتار چڑھاؤ سب میں آتا رہتا ہے۔ بس تحریک چلانے والے مستحکم عزم سے اپنے مقصد کیلئے برسرپیکار ہوں۔ پہلے آزادی کے نعرے لگتے تھے اب فوری طور پر دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
 5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیریوں سے ان کا تشخص ان کا فخر و غرور چھیننے کے لئے انہیں نفسیاتی طور پر دباؤ میں لانے کے لئے بھارتی آئین میں کشمیریوں کو دی  گئی خصوصی حیثیت ختم کر کے انہیں احساس دلایا کہ اب وہ بھارت کے لئے کوئی خاص لوگ نہیں عام شہری ہیں اب  ان کی شناخت بھارتی شہریت ہوگی۔ انکی سیاسی، سماجی، ثقافتی زندگی اب خاص نہیں رہی یہ ایسا کاری وار تھا جس کا کشمیریوں کو اندازہ بھی نہیں تھا  کہ وہ یکایک خاص سے عام ہو جائیں گے۔ غیر کشمیریوں کے لئے ریاست جموں و کشمیر کی شہریت کو کھول دینا۔ وہاں متعصب انتہا پسند ہندو جنونیوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو لا کر آباد کرنا، ان کے لئے کالونیاں بنانا دراصل کشمیر کی مسلم اکثریت شناخت کو ختم کرنے کی بڑی سازش ہے۔ صرف یہی نہیں ان پانچ برسوں میں کشمیری ظلم و ستم، جبر و تشدد، قتل عام اور گرفتاریوں کے علاوہ ذرائع ابلاغ کی  طویل بندش کی وجہ سے نا صرف دنیا سے کٹ کر رہ گئے بلکہ سنسر شپ نے ان کی اور میڈیا کی زبان بند کر دی۔
صرف یہی نہیں اقتصادی طور پر کشمیری پھل، لکڑی،دستکاری اور فصلوں کو بیدردی سے تباہ کیا گیا۔ کشمیری تاجروں، کاشتکاروں کو 60 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑا  جس نیاقتصادی لحاظ سے کشمیریوں کی کمر توڑ دی۔ اس کے ساتھ تقریباً پانچ لاکھ سے زیادہ کشمیری ملازمتوں سے فارغ کر دیئے گئے ان میں ریاست اور اندرون بھارت میں کام کرنے والے کشمیری مسلمان شامل ہیں جس سے بدحالی بڑھی۔ جموں و کشمیر میں تعلیمی ادارے بند رہے۔ بھارت میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کو ہراساں کر کے واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔
اس کے برعکس تین لاکھ سے زیادہ غیر کشمیریوں کو ریاستی ڈومی سائل جاری کئے گئے جو سراسر ظلم اور ناجائز حرکت ہے۔ جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کو خاص طور پر بکروال (چرواہوں) اور دیہات میں رہنے والوں کی اراضی چھینی جا رہی ہے انہیں بیدخل کیا جا رہا ہے، ڈرا دھماکا کر علاقہ گھر بار چھوڑ کر وہاں سے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ وھاں ھندوؤں کو بسایا جائے۔ ان مجبور و بے کس کشمیریوں کو صرف اس لئے ستایا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں یوں جان بوجھ کر ر یاست جموں و کشمیر میں مسلم دشمنی کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور اسے ہندو اکثریتی سٹیٹ بنانے کی سازش میں وہاں کی بی جے پی کی حکومت پیش پیش ہے۔
بھارت کی تمام تر کوشش کے باوجود گزشتہ 73 برسوں میں کشمیر میں کوئی غیر کشمیری جماعت سیاسی میدان میں جگہ نہ بنا سکی۔ لیکن اب صورتحال تبدیل کی جا رہی ہے۔ لالچی کشمیریوں کو خرید کر بی جے پی جموں کشمیر کی مقبوضہ کشمیر میں تنظیم سازی کی جارہی ہے۔ وہاں ہندو جماعت کا ہندو وزیراعلیٰ لانے کے لئے جموں میں پہلے بہت کام ہو چکا ہے۔ جس کی ریاستی اسمبلی میں نشستیں بھی بڑھائی جا چکی ہیں جبکہ مسلم اکثریتی کشمیر کی جس کی آبادی بھی جموں سے کئی گنا زیادہ ہے اس کی اسمبلی میں نشستیں کم کی گئی ہیں گویا 2019 ء کے بعد حقیقت میں کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے بھارت نے اب کشمیریوں کے  تشخص انکی شناخت کو بھی کچلنے کی پوری تیاری کر لی ہے۔ اس کی مسلم اکثریتی حیثیت کے ساتھ اس کا اپنا ثقافتی سماجی سیاسی کلچر بھی ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ نہایت بہیمانہ انداز میں کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ بند، اخبارات، ویب سائٹس پر سخت سنسر شپ نافذ ہے۔
اس ماحول میں کشمیری کچھ گھبرائے تو ضرور ہیں مگر ابھی تک خوفزدہ نہیں ہیں بس ذرا تبدیلی ہوا کے منتظر ہیں جیسے ہی یہ خوف بھی کم ہو گیا تو کشمیر کی تحریک آزادی ایک نئے رنگ میں ابھر کر سامنے آئے گی کیونکہ ظلم و جبر نے کبھی آزادی کی تحریکوں کو ختم نہیں کیا۔ ہاں ! راہ ذرا اور طویل ہو گئی مگر آزادی کی راہ میں جان کے نذرانے پیش کرنے والے ختم نہیں ہوتے۔ یہی اس وقت کشمیرمیں ہو رہا ہے۔ لاوا اْبل رہا ہے جو کسی بھی وقت ایک دھماکے سے پھٹ کر بھارت کے تمام غرور کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ یہی تاریخ کا سبق ہے اور یہی ایک حقیقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھارت کبھی انگریزوں کی غلامی سے آزاد نہ ہوتا خود اپنی  تاریخ سے ہی بھارتی سبق حاصل کریں تو بڑی بات ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن