پاکستان کو برباد کرنے کا مکروہ ایجنڈا 

Aug 01, 2023

سعید آسی

یوم عاشور کے اگلے ہی روز باجوڑ کے علاقے خار میں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے ورکرز کنونشن میں جس وحشت و بربریت کے ساتھ سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلایا گیا‘، میرے خیال میں یہ محض دہشت گردی کا واقعہ نہیں بلکہ خودکش حملے کی یہ واردات کثیرالمقاصد ہے اور اس کا بنیادی مقصد ان قوتوں کے عزائم کو تقویت پہنچانا اور انہیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا مزید اور کھلا موقع فراہم کرنا ہے جو حیلے بہانے سے پاکستان کی سلامتی اور اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کیخلاف بھی اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے اور سازشی تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔ اس سفاک دہشت گردی میں جے یو آئی کے مقامی قائدین سمیت اسکے پچاس کے قریب ارکان شہید اور 200 کے قریب افراد زخمی ہوئے جن میں متعدد زخمی جان کنی کی کیفیت میں ہیں جس پر پوری قوم آج خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ مگر کیا صرف رسماً خون کے آنسو بہانے اور ملک کی حکومتی‘ سیاسی‘ عسکری قیادتوں کی جانب سے رسمی مذمتی بیانات جاری کرنے سے اس نقصان کا ازالہ ہو پائے گا جو اس سانحہ میں شہید اور زخمی ہونیوالے افراد کے اہل خانہ کو اٹھانا پڑا ہے۔ 
 تو جناب! ذرا سنجیدگی کے ساتھ اس سانحہ کے پس پردہ محرکات کا جائزہ لیجئے کہ ملک کے اندر سے بھی کون اس ارض وطن کی ترقی و سلامتی کے درپے ہے اور اسے عالمی تنہائی کی جانب دھکیلنے کا خواہش مند ہے۔ ویسے تو اس ارض وطن پر فرقہ واریت بھی پاکستان کی سلامتی کے دشمنوں کی جانب سے ہی مخصوص مقاصد کے تحت پھیلائی جاتی رہی ہے اور ان مقاصد کے تابع سفاک دہشت گردی کیلئے یوم عاشور کو بھی اپنے ہدف پر رکھا جا سکتا تھا جیسا کہ گزشتہ سالوں کے دوران ہوتا آیا ہے۔ اگر یہ واردات یوم عاشور کے اگلے روز ڈالی گئی تو صاف ظاہر ہے کہ اسکے مقاصد ملک میں فرقہ واریت پھیلانے سے بھی زیادہ گھنائونے ہیں جو عام فہم الفاظ میں بھی اس ملک خداداد پر اسکے اسلامی تشخص کے ناطے دہشت گردوں کا سرپراست ہونے کا ٹھپہ لگوانے پر مبنی ہیں۔ 
اس وقت مغربی دنیا میں محض فیشن کے طور پر نہیں‘ بلکہ ایک واضح ایجنڈا کے تحت سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کے واقعات رونما کرائے جا رہے ہیں تاکہ مسلم دنیا کو مشتعل کرکے انہیں ردعمل کے اظہار پر اکسایا جائے اور اس ردعمل میں ہونیوالی توڑ پھوڑ‘، جلائو گھیرائوکے واقعات کو اسلامی دہشت گردی کے کھاتے میں ڈال کر مسلمانوں کے دہشت گرد ہونے کے اپنے تراشے گئے فلسفہ کو تقویت پہنچائی جاسکے۔ آپ باجوڑ کے گزشتہ روز کے سانحہ کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لیں تو آپ کو اس سانحہ کے فوری بعد دہشت گرد سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی اقوام متحدہ کی کمیٹی کے ردعمل کی سمجھ آجائیگی۔ 
دہشت گردی کے اس واقعہ کی بنیاد پر ہی یواین کمیٹی کو یہ کہنے کی سہولت مل گئی کہ پاکستان پر حملوں کیلئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو القاعدہ کی سرپرستی حاصل ہو گئی ہے جو علاقائی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ گویا یواین کمیٹی دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کیلئے القاعدہ کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ اس طرح پاکستان کے ناطے ان الحادی قوتوں کو دین اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کی سہولت بھی مل جائیگی اور شعائر اسلامی کی تضحیک و تذلیل بشمول گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور توہین قرآن کے رونما ہونیوالے واقعات کا جواز بھی انکے ہاتھ آجائیگا۔ 
اس معاملہ میں پاکستان اس لئے ان الحادی قوتوں کا ہدف ہے کہ یہ مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہے اور اسکی افواج اپنی عسکری‘ جنگی‘ دفاعی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ پھر جناب! ذرا اس بات کا بھی جائزہ لے لیں کہ ملک کے اندر سے ان الحادی قوتوں اور پاکستان کی سلامتی کے درپے دشمنوں کو دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کے ذریعے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا موقع کس نے فراہم کیا۔ آپ ذرا تعصب اور اندھی عقیدت و نفرت سے بالاتر ہو کر 2014ء سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیں تو آپ کو سارے معاملے کی سمجھ آپائے گی۔ آپ 2014ء سے بھی پہلے 2012ء میں جھانکیں جب پی ٹی آئی کے چیئرمین کو پاکستان کے بے بدل قائد کے طور پر لانچ کیا گیا اور ملکی سیاست میں اودھم مچانے اور سیاسی عدم استحکام کے ذریعے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے راستے نکالے گئے۔ گالم گلوچ اور پکڑو‘ رگڑو والے کلچر کو ہوا دی گئی۔ اس کلچر کا بنیادی مقصد ملک کے ریاستی اداروں اور ان سے وابستہ شخصیات کی بھد اڑا کر سسٹم کو چلتا کرانے کے راستے نکالنا تھا تاکہ نہ سسٹم مستحکم ہو گا اور نہ ملکی معیشت کے مستحکم ہونے کے ناطے اسکے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کا خواب پورا ہو سکے گا۔ 
پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کا 2014ء کا دھرنا انہی مذموم مقاصد میں لپٹا ہوا تھا جس کے ذریعے ملکی سیاست میں اودھم مچایا گیا اور قومی ریاستی اداروں کی تضحیک کے عملی مظاہرے کئے گئے۔اس کا فوری نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کو سی پیک کی شکل میں عملی قالب میں ڈھالنے کیلئے چین کے صدر کے دورہ ٔپاکستان کا شیڈول طے ہو چکا تھا مگر انہی تاریخوں میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کا پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنے کے ذریعے ریاستی اداروں کیخلاف اودھم مچانے کا ایجنڈا عروج کو پہنچ چکا تھا چنانچہ چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہو گیا اور وہ پاکستان کے بجائے انہی تاریخوں میں بھارت چلے گئے جہاں انہوں نے 42 ارب ڈالر کے وہی معاہدے بھارت کے ساتھ کرلئے جو پاکستان کے ساتھ ہونیوالے تھے۔ بھائی صاحب! ذرا سوچیئے کہ پاکستان کی ترقی و سلامتی کیخلاف یہ ایجنڈا کہاں سے آیا اور کس کے ذریعے لاگو ہوا۔ 
اب آجائیے پی ٹی آئی کے دور اقتدار کی جانب جس میں دہشت گردوں کی کالعدم تنظیم تحریک طالبان کو سب سے زیادہ سہولت حاصل ہوئی۔ بے شک پی ٹی آئی کے دور میں امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کیلئے پاکستان کا کردار ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ تھا مگر اسکے نتیجے میں طالبان کو کابل کے اقتدار تک دوبارہ رسائی کا موقع ملا تو انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ پالیسی اختیار کی۔ اور پی ٹی آئی حکومت نے اس کا کیا جواب دیا۔ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان اور اسکی حکومت کی بھد اڑانا شروع کردی۔ اسکے ذمہ دار حکومتی عہدیداران بھی پاکستان کو گالی دینے کا شوق پورا کرتے نظر آنے لگے۔ اور تو اور۔ طالبان گروپوں نے پاک افغان سرحد پر لگی باڑ بھی رعونت کے ساتھ اکھاڑنے اور پاکستان کے پرچموں کو پائوں تلے روندنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آپ اس عرصے کے دفتر خارجہ کے ریکارڈ کی ورق گردانی کرلیں‘ کیا پی ٹی آئی حکومت نے طالبان کے ایسے رعونت بھرے اقدامات پر کسی سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اسکے برعکس مردان پاکستان کی جیل سے طالبان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں خطرناک دہشت گردوں کو جیل توڑ کر فرار ہونے کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی اور طالبان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہزاروں طالبان افغانستان سے پاکستان آ گئے۔ انہی دہشت گردوں نے طالبان حکومت کی سرپرستی میں افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں اور وہ جب چاہتے ہیں‘ پوری سہولت کے ساتھ سرحد عبور کرکے پاکستان میں آدھمکتے ہیں اور دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو کمزور اور برباد کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل میں جت جاتے ہیں۔ 
اگر باجوڑ دہشت گردی کی واردات اس وقت ڈالی گئی ہے جب سی پیک منصوبے کے دس سال مکمل ہونے کی تقریب میں شمولیت کیلئے چین کے نائب وزیراعظم پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ چکے تھے تو کیا یہ معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا رہا ہے۔ یقینناً سی پیک کے ذریعے پاکستان کی ترقی روکنے کی بدنیتی کے تحت اس سفاکانہ واردات کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ اس واردات پر پاکستان کے بدخواہوں نے تو لڈو کھائے اور لڈیاں ڈالی ہوں گی۔ سو طالبان کو پاکستان کی سرزمین پر کھل کھیلنے کا جنہوں نے نادر موقع فراہم کیا‘ وہ ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیں جو اپنی سیاست میں ناکامی پر خود بھی پاکستان کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے‘، اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی کے چھین لئے جانے اور اسکی فوج  میں کمزوری در آنے کی سفلی خواہشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اگر اپنی آنکھوں پر اندھی عقیدت کی بندھی پٹی کے باعث کسی کو  یہ حقائق نظر نہیں آرہے تو شاید انکی ہدایت کی دعا کرنا بھی عبث ہوگا۔

مزیدخبریں