ایوان بالا نے توشہ خانہ مینجمنٹ بل اور ائیر پورٹس اتھارٹی بل کثرت رائے سے منظور کر لئے جبکہ چیرمین سینیٹ نے پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کا بل اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کے شدید احتجاج پرموخر کر دیا ، انتہاپسندی کی روک تھام کا بل وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے پیش کیا جس پر حکومتی اتحادی جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور ایوان سے واک آوٹ کی دھمکی دی۔ اس موقع پر سینیٹر ڈاکٹر محمد ہمایون مہمند نے کہاکہ اس بل کی ایک ایک شق سے بدبو آرہی ہے اور یہ پاکستان تحریک انصاف کو ٹارگٹ کرنے کا بل ہے، اس کا اثر تمام سیاسی پارٹیوں پر پڑیگا۔سینیٹر طاہر بزنجو نے کہاکہ لگتا ہے کہ سارے بڑے فیصلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کر رہی ہے،مسلم لیگ ن سے سخت گلہ ہے۔ کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ بل جمہوریت پر ایک حملہ ہے اس میں جمہوریت کی موت نظر آرہی ہے۔ اس قانون کی زد میں کوئی آور آئے گا۔ سب اس کا نشانہ بنیں گے۔ اسی طرح دوسرے حکومتی اتحادیوں اور جماعت اسلامی نے بھی بل پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسکی مخالفت کی جس پر چیئرمین سینٹ نے اس بل کو از خود ڈراپ کر دیا۔
بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد،مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال اور تشدد ہے، اسکے علاوہ اس میں فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا یا اکسانا، فرقہ واریت کی ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہو، پرتشدد انتہا پسندی میں شامل کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا یا تشدد اور دشمنی کیلئے اکسانا شامل ہے۔بے شک 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں پرتشدد انتہاء پسندی کی روک تھام کا بل انتہائی اہمیت کا حامل ہے مگر جس طرح حکومتی اتحادیوں کی طرف سے اس پر تحفظات سامنے آئے ہیں‘ بہتر تھا کہ حکومت اس پر قانون سازی کرنے سے پہلے تمام سیاسی پارٹیوں کی باہم مشاورت سے اسے کمیٹی میں پیش کرتی تاکہ اس پر اعتراض کی نوبت نہ آتی۔ مگر جس جلد بازی میں یہ بل لایا گیا‘ اس سے یہی تاثر پختہ ہوا ہے کہ یہ بل صرف پی ٹی آئی کو نااہل کرنے یا اسے انتخابات سے باہر رکھنے کیلئے عجلت میں لایا گیا ہے جس کا عندیہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان میں بھی دیا ہے۔ یہ درحقیقت پی ٹی آئی کیخلاف ہی نہیں‘ مستقبل میں تمام سیاسی جماعتیں اسکی زد میں آسکتی ہیں۔ اگر حکومت تدارکِ انتہاء پسندی بل لانے سے پہلے تمام سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کرلیتی تو اسکے اتحادیوں کی طرف سے اس بل پر تحفظات کی نوبت نہ آتی۔ اس بل کو حکمران مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ اس بل کیلئے وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے لوگوں سے بھی مشاورت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ حکومت کو جاتے جاتے ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے اسکی اپنی ساکھ متاثر ہو سکتی ہو۔