40 ہزار دہشت گرد

Aug 01, 2023

عبداللہ طارق سہیل

چینی صدر آ رہا ہے، اسلام آباد میں دھرنا، چینی وزیر اعظم آ رہا ہے، اسلام آباد میں لاک ڈاﺅن ، چینی نائب وزیر اعظم آ رہا ہے، باجوڑ میں دھماکہ__ تاریخ ہے کہ خود کو دہرائے چلی جا رہی ہے۔ 
باجوڑ دھماکے میں جے یو آئی کے پچاس سے زیادہ کارکن شہید، ڈیڑھ سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ وہ آٹھ نو سال کا بچہ بھی مارا گیا جو سکول نہیں جاتا تھا، گھر والوں کا پیٹ پالنے کیلئے گھوم پھر کر چپس بیچا کرتا تھا۔ ایک دو سال کی بیٹی سمیت بہت سے بچے یتیم ہو گئے، بہت سی عورتیں بیوہ ہوئیں، کئی ماﺅں کی کوکھ اجڑ گئی۔ 
معاملہ بہت سنجیدہ ہے، سنجیدہ سے زیادہ سنجیدہ ہوتا جا رہا ہے لیکن کیا کیجئے، ریاست غیر سنجیدہ ہے، غیر سنجیدہ سے زیادہ غیر سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے اور غیر سنجیدگی کا یہ ”ارتقا“ عشروں سے جاری ہے۔ سوچنے کا نکتہ یہ ہے کہ ارتقا جب عروج کے نکتے پر پہنچ جائے گا پھر کیا ہو گا۔ ریاست کو صرف ایک فقرہ آتا ہے جسے دہراتے وہ کبھی تھکتی نہیں کہ دہشت گردی سے ہمارے عزائم کمزور نہیں ہو سکتے۔ 
______
افغان طالبان نے دھماکے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دھماکے کرنے والوں کو پناہ گاہیں اور جدید ہتھیار انہوں نے بندہ پروری کے کس اصول کے تحت د ے رکھے ہیں۔ ادھر ایسے دانشور بھی موجود ہیں جو اس دھماکے کو مذہبی انتہا پسندی سے جوڑ رہے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی تو بے شک ہے اور بڑھ بھی رہی ہے لیکن اس دھماکے کا مذہبی انتہا پسندی سے کیا تعلق ہے؟ 
یہ دھماکہ _ بے شک ، بے شبہ __ ٹی ٹی پی نے کیا ہے۔ جو جے یو آئی کی مذہبی طور پر ہم مسلک ہے۔ میرے بھائی، یہ سیاسی ایجنڈے کی پرتشدد جنگ ہے جو ٹی ٹی پی پاکستان کیخلاف لڑ رہی ہے۔ دھماکے سے صرف چار دن پہلے، ٹی ٹی پی کا پیغام نشر ہوا تھا کہ ہم پشاور ہی نہیں، اسلام آباد کو بھی آزاد کرائیں گے۔ وہ ساری پشتون بیلٹ افغانستان میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور کابل میں برسراقتدار تحریک طالبان کے ایک اہم دھڑے کی حمایت بھی اسی ایجنڈے کو پوری طرح مل رہی ہے۔ اس دھڑے کا اور ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد دراصل عارضی لکیر تھی جو ڈیورنڈ لائن قرار دی گئی اور انگریزوں نے یہ کام کابل حکومت کے ساتھ ایک صدی کی مدّت والے معاہدے کے تحت کیا۔ وہ مدّت ختم ہو گئی، اب ہم اپنا علاقہ واپس لیں گے۔ 
حکومت ان کا منہ آسانی سے یہ کہہ کر بند کر سکتی تھی کہ 1946ءکے ریفرنڈم نے ڈیورنڈ لائن کا سارا قضیہ ہی ختم کر دیا تھا جس میں (اس وقت کے) صوبہ سرحد کے عوام نے بھاری اکثریت سے پاکستان کاحصہ بننے کی منظوری دی تھی۔ کیسی ڈیورنڈ لائن، کیسا معاہدہ__ لیکن حکومت یہ نکتہ اٹھا ہی نہیں رہی۔ وہ تو اس نکتے کو بھی نہیں اٹھا پا رہی کہ گزشتہ حکومت میں کون دو مہمان ہستیاں تھیں جو 40 ہزار دہشت گردوں کو باعزت پاکستان واپس لائی تھیں اور انہیں جملہ سہولتیں بھی دی تھیں۔ 
______
اس سیاسی مقاصد والی پرتشدد جنگ کے دو مقصد اور بھی ہیں۔ چین کو ان ترقیاتی منصوبوں سے روکنا ہے جو وہ پاکستان میں لگا رہا ہے اور جس میں سی پیک سرفہرست ہے۔ ٹی ٹی پی اس مقصد کیلئے پاکستان کے ایک بظاہر سیاسی جتّھے کی ہم سفر ہے جس نے 2014ءمیں طویل دھرنا اسی مقصد کیلئے دیا تھا۔ اس کھیل میں ٹی ٹی پی اور اس جتّھے کو بھارت کی سرپرستی بھی حاصل ہے اور امریکی ری پبلک پارٹی کے اس انتہا پسند دھڑے کی بھی جو پاکستان کے ایٹمی اثاثے ختم ، اس کی فوج (لیبیااور سوڈان کی طرح) کرنا چاہتا ہے اور جو یہ سمجھتا ہے کہ پشتون بیلٹ اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر کے چین کا مکّو مستقل بنیادوں پر ”ٹھپا" جا سکتا ہے۔ یہ کوئی اندر کھاتے یا باوثوق ذرائع کی خبر نہیں ہے، مذکورہ سیاسی جتھّا ان دنوں جن امریکی ارکان کانگرس سے مل مل کر مدد مانگ رہا ہے اور کچھ کرتے کیوں نہیں کا شکوہ کر رہا ہے وہ سب کے سب ری پبلکن ہیں، نیوکانز ہیں یا صہیونی یہودی ہیں۔ اب تو سب کھل گیا، اب باوثوق ذرائع کو تکلیف دینے کی ضرورت ہی کہاں رہی۔ معید پیرزادہ، شاہین صہبائی سجاد برکی (واجد برکی کے سپتر) ڈاکٹر آصف محمود ربوائی حیدر مہدی ، عادل راجہ سمیت درجنوں امریکی اور برطانوی شہریت والے پاکستانی ڈیڑھ سال سے جو سرگرمیاں کر رہے ہیں، ان کی ساری ٹائم لائن موجود ہے، جو کوئی بھی ملاحظہ کرنے والا ملاحظہ فرما سکتا ہے۔ 
______
تیسرا نکتہ ٹی ٹی پی کا پاکستان میں الیکشن رکوانا ہے۔ جس طرح مذکورہ سیاسی جتّھہ بار بار کہہ چکا ہے کہ ہم نہیں تو ہمیں پاکستان بھی منظور نہیں، اسی طرح ٹی ٹی پی کا بھی یہی ”عزم“ ہے کہ یہ جتھہ نہیں تو پھر الیکشن بھی نہیں۔ سہ نکاتی ایجنڈا، پانچ رکنی اتحاد۔ دو رکن ملک کے اندر، تین باہر۔ 
______
جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے عبداللہ حمید گل نے کہا ہے کہ افغان طالبان احسان فراموش ہیں۔ 
اس پر تبصرہ بہت لمبی داستان ہو جائے گا لیکن حضرات، امریکہ کی خوش قسمتی ملاحظہ فرمائیں (امریکہ سے مراد یہاں ری پبلکن پارٹی کا نیوکانز، صہیونی اتحاد والا دھڑا ہے) کہ جو کام وہ کرزئی اور اشرف غنی سے نہ لے سکا، وہ طالبان سے لینے میں کامیاب ہو گیا۔ 
______
خیر، دھماکہ ہو چکا، اللہ شہدا کی شہادت قبول فرمائے، زخمیوں اور متاثرین کا سہارا بنے، یہاں تھوڑا سا ذکر شیخ رشید کے تازہ بیان کا کرنا ہے۔ 
ایوان میں قانون سازی کے کسی عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شیخ رشید نے فرمایا کہ یہ قانون سازی حکومت کی مجبوریت ہے۔ 
مجبوریت بروزن جمہوریت۔ اخبارات نے اس بیان کی سرخی انہی الفاظ میں لگائی۔ شیخ صاحب نے مجبوریت والا یہ بیان کسی پریس کانفرنس میں جاری نہیں کیا بلکہ نامعلوم مقام پر اپنی ”مفروریت“ کے دوران جاری کیا۔ یہ مفروریت ان کی بہادریت کی مجبوریت ہے۔ وہ کہا کرتے تھے، ہتھکڑی میرا زیوریت، جیل میری سسرالیت ہے لیکن ان دنوں ان دونوں ناموں کو سن کر ہراسیت انہیں اپنی شکاریت بنا لیتی ہے۔ 
پرانے بزرگ ایسے موقع پر کہا کرتے تھے، میاں کیوں زنان خانیت میں چھپے بیٹھے ہو، ذرا مردان خانیت میں آ کر بات کرو لیکن شیخ جی ٹھہرے ”پڑھے لخے“ آدمی ، انہوں نے یہ کہاوت کہاں سنی ہو گی، اسی لئے ”خلونیت“ سے باہر ہی نہیں آ رہے حالانکہ ان کی تحریک بالٹیت کو اس وقت ان کی سخت ضروریت ہے۔ 
مختلف یورپی ملکوں میں مال لے جانے اور لانے والی ریلوے کی ریل گاڑیوں (فریٹ ٹرین) کی تعداد اس سال دس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ دس ہزار مال گاڑیاں، دیکھو چین کتنا سامان بناتا ہو گا۔ اور اس کے تعاون سے ہمیں کتنا فائدہ ہو گا۔ لیکن ”دھرنا اتحاد“ ہمیں سانس لینے دے تبھی کچھ ہو سکتا ہے۔ 

مزیدخبریں