اسلام آباد (وقائع نگار) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کا342 کا بیان قلمبند کرنے کیلئے مہلت دیتے ہوئے آج دوبارہ ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے توشہ خانہ کیس رکوانے کیلئے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ سیشن عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے جونیئر نے عدالت پیش ہو کر بتایا کہ خواجہ حارث ایڈووکیٹ ابھی سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، ساڑھے بارہ بجے کے بعد پہنچیں گے، جج طاہر عباس سپرا کی عدالت بھی پیش ہونا ہے، جس پر عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر پی ٹی آئی وکیل نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی انسداد دہشتگردی عدالت پیشی کے بعد یہاں آئیں گے جبکہ خواجہ حارث ایڈووکیٹ ابھی بھی سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، عدالت نے پھر سماعت میں وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی احتساب عدالت اور انسداد دہشتگردی عدالت پیش ہوگئے ہیں، تھوڑی دیر تک یہاں پہنچ جائیں گے، سماعت شروع ہونے پر جج ہمایوں دلاور نے غیر متعلقہ افراد اور وکلاءکو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ پچھلی بار بھی کہا تھا غیر متعلقہ وکلاء عدالت نہ آئیں۔ اسی دوران چیئرمین پی ٹی آئی جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گئے، جہاں کمرہ عدالت آنے کے دوران پی ٹی آئی اور ن لیگی وکلاءکے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی اور ن لیگی وکلاءنے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف نعرے بازی کی۔ شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عدالت میں موجود ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کا آج بیان ریکارڈ ہونا ہے، خواجہ حارث سپریم کورٹ میں موجود ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی سے 35 سوالات پوچھے گئے ہیں، تحریری جواب بھی دینا چاہتے ہیں، عاشورہ میں وکلاء کام نہیں کرتے، توشہ خانہ کیس کے بیان ریکارڈ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، استدعا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو بیان ریکارڈ کرانے کیلئے مناسب وقت دےدیا جائے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ سوالنامہ مہیا کرنا ملزم کے لیے ایک طرح کا ریلیف ہے، اگر ملزم غلط جواب بھی دے دے تو سزا نہیں ہوسکتی، جمعرات کو چیئرمین پی ٹی آئی کو بیان ریکارڈ کرانا تھا، پیر کا دن آگیا، بیان ریکارڈ ابھی تک نہیں ہوا، ٹرائل میں سوالات جاری کرنے کا کوئی ریلیف نہیں ہوتا لیکن عدالت نے دیا، اگر چیئرمین پی ٹی آئی تحریری بیان دینا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے، زیادہ سے زیادہ ریلیف عدالت نے پہلے ہی چیئرمین پی ٹی آئی کو دےدیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو سوالنامہ دینے کے بعد حیرت میں نہیں آنا چاہیے، سوالنامے میں اثاثہ جات کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی سے پوچھا گیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی سے وہی پوچھا گیا جو انہوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروایا، الیکشن کمیشن میں جواب سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس بھیجنے پر دائر کیا گیا۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ سماعت ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، جج ہمایوں دلاور نے استفسار کیاکہ کیا بیرسٹر گوہر علی خان نے سوالنامہ وصول نہیں کیا؟، وکیل گوہر علی خان نے کیوں سوالنامہ وصول کرتے وقت اعتراض نہیں کیا؟، جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ برائے مہربانی ریلیف کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کریں، دوران سماعت بھی کمرہ عدالت کے باہر پی ٹی آئی اور ن لیگی وکلاء کے مابین تلخ کلامی ہوئی اور نعرے بازی کی گئی، جبکہ وہاں موجود سکیورٹی اہلکار اپنے افسروں کی موجودگی کے باوجود ان کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے۔ دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی روسٹرم پر آگئے، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ پورے ملک کی نظریں توشہ خانہ ٹرائل پر ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو کیا اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل حق دیا جاتا ہے؟ سب دیکھا جائے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تمام درخواستیں زیر سماعت ہیں، گواہان کو الیکشن کمیشن کا ریکارڈ بھی مکمل طور پر مہیا نہیں کیا گیا، آج سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتا ہوں، آئندہ سماعت پر چیئرمین پی ٹی آئی اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے، گارنٹی دیتا ہوں۔ اسی دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کمرہ عدالت پہنچ گئے، جس پر جج ہمایوں دلاور نے ان سے کہاکہ خواجہ حارث صاحب خوش آمدید، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ مجھے امجد پرویز کی نظر لگ گئی، صبح دیر سے اٹھا ہوں، صبح ہسپتال گیا تھا، رات کو دیر سے سویا تھا، ہائیکورٹ میں متعدد درخواستیں زیرالتواءہیں، دائرہ اختیار والی درخواست بھی اعلیٰ عدلیہ میں زیر التواءہے، قانون کے مطابق توشہ خانہ ٹرائل کو دیکھنا چاہیے، چیئرمین پی ٹی آئی کے بیان کا معاملہ آئندہ ہفتے کرلیا جائے، تب تک ہائیکورٹ بھی فیصلہ کر لے گی، سارا دن درخواستیں ہی تیار کرتے رہتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی بیان کے حوالے سے وقت مانگ رہے ہیں، رواں ہفتے میں ہی اعلیٰ عدلیہ میں درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہو جائیں گی، اس کے بعد بیان ریکارڈ کرانے کے حوالے سے کوئی جواز نہیں رہےگا، وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ آج بیان ریکارڈ ہو بھی جاتاہے تو کیا فیصلہ آج ہوجائےگا؟، جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ آپ کو توشہ خانہ فیصلہ سے کیوں ڈر لگ رہاہے،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہائیکورٹ میں بھاگوں یا ٹرائل کورٹ میں ؟ کہیں تو مکمل توجہ دیں،تینوں عدالتوں میں بھاگ رہے ہیں، سانس لینے کا موقع نہیں مل رہا،اس موقع پر جج ہمایوں دلاور نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ عمر کا تقاضا تو نہیں ؟ جج ہمایوں دلاور کے جملے پرکمرہ عدالت میں قہقہہ لگ گیا، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ میں درخواستیں ختم ہوتی ہیں تو ہم ٹرائل کورٹ آجائیں گے،میں انڈرٹیکنگ دینے کو تیار ہوں۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے جج ہمایوں دلاورسے کہاکہ آج آپ کچھ کر گزرے تو ذہن میں رہےگا کہ وقت نہیں دیا، اعلیٰ عدلیہ سے فیصلہ ہوگیا، میں اور چیئرمین پی ٹی آئی اگلے دن آپ کے پاس ہوں گے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر ہیں لیکن اب تک فیصلہ کوئی بھی نہیں ہوا،342 کا بیان ریکارڈ ان کے اپنے دستاویزات پر ہونا ہے،جو بیان الیکشن کمیشن کے سامنے دیا اس ہی پر 342 کا بیان ریکارڈ کروانا ہے،342 کے بیان ریکارڈ کروانے سے کوئی تعصب نہیں دکھایاجائےگا،وکیل الیکشن کمیشن کی جانب سے چیرمین پی ٹی آئی کا آج 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کی استدعا کی گئی، جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ خواجہ حارث آپ کو وقت دیا گیا، آپ نے بیان ریکارڈ نہیں کروایا،3 بجے تک آپ کے پاس بیان ریکارڈ کروانے کا وقت ہے،آج تیسرا دن ہے، آج چیئرمین پی ٹی آئی اپنا ریکارڈ بیان کروا دیں،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی کہہ رہے کہ میں نے دستاویزات کو ابھی مکمل نہیں پڑھا، مجھے وقت چاہیے، ہائیکورٹ کا فیصلہ ہونے دیں کیونکہ بیان ریکارڈ کرنے کا حق متاثر ہورہاہے،چیئرمین پی ٹی آئی گواہان کےبیانات ریکارڈ کرواتے وقت عدالت میں موجود نہیں تھے،گواہان کے بیانات ریکارڈ کرواتے وقت چیئرمین پی ٹی آئی کا نمائندہ صرف ایک دن مقرر ہوا،اگر دلائل بھی سن لیں تو فائدہ نہیں، فیصلہ آپ نہیں کر سکتے،جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ3 بجے عدالت کو آگاہ کریں بیان قلمبند کروانا ہے یا نہیں،اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی نے جج ہمایوں دلاور سے کہاکہ مجھے تو کل بیانات دیے گئے ہیں،جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ آپ کی لیگل ٹیم آپ کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے،چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ 35 سوالات دیے، میں کوئی وکیل تو نہیں ہوں،مجھے تو بیانات کو خود پڑھنا ہے ابھی،جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ اگر خواجہ حارث چاہیں تو ایک ایک سوالات آپ کو بتایا اور سمجھایا جا سکتا ہے،خواجہ حارث، انتظار پنجوتھا اور شیرافضل کے ہوتے کیا فکر ہے؟ جس پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ مجھے کوئی ڈر نہیں، میں سب پڑھ کر بیان ریکارڈ کروانا چاہتاہوں،جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ سب وکلائ کو کمرہ عدالت سے رخصت کردیں،چیئرمین پی ٹی آئی کو سمجھائیں اور بیان ریکارڈ کروائیں،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ گن پوائنٹ پر کیسز نہیں سنے جاتے،چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ ڈیڑھ سو سے زائد کیسز ہیں، شاملِ تفتیش بھی ہونا، معمول کے مطابق حالات نہیں،میں مطمئن ہوں گا تو بیان ریکارڈ کرواو¿ں گا نا،جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ عدالت نے کافی وقت دیا آپ کو،آج عدالت آپ کو مزید وقت نہیں دےگی، 3 بجے تک کا وقت ہے،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ 3 بجے تک یا بیان ریکارڈ کروائیں گے یا نہیں کروائیں گے، عدالت نے 3 بجے تک چیئرمین پی ٹی آئی کو بیان ریکارڈ کروانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا،جس کے بعد سماعت شروع ہونے ہر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے اور 342 کا بیان قلمبند کرنے کی کارروائی کو ملتوی کرنے کی نئی درخواست دائرکرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ دائر درخواست کو سنا جائے،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہائیکورٹ میں معاملہ پنڈنگ تھا اور یہاں کاروائی چلائی جاتی رہی،چیئرمین پی ٹی آئی کو ہائیکورٹ کی ڈائیری برانچ سے نیب نے اٹھایا،اگلے دن پولیس لائن میں عدالت لگا کر پیش کر دیا گیا،مجھے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور اس عدالت میں پیش کیا گیا،سیشن عدالت نے سماعت ملتوی کرنے کی بجائے فردجرم عائد کردی، سیشن عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے فردجرم بھی نہیں پڑھا، جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ یہ وہی دن ہے جب فردجرم پڑھایاگیا اور آپ نے کہا اٹھیں اور چلیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ فردجرم عائد کرتے وقت جرم چیئرمین پی ٹی آئی کو پڑھایاگیا، وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ میں نے کبھی سماعت بایکاٹ نہیں کی، ایسا کہہ بھی کیسے سکتےہیں،چیئرمین پی ٹی آئی پر کوئی فردجرم عائد نہیں ہوا، میں بار بار کہتاہوں،اس موقع پر جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ کیا آپ اپنا افیڈیوٹ جمع کروائیں گے کہ فردجرم عائد نہیں ہوا؟،کیا افیڈیوٹ جمع کروا سکتے ہیں کہ فردجرم آپ کے سامنے نہیں پڑھا گیا،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ تین اپیل کی درخواستیں اعلی عدلیہ میں زیر التوائ ہیں، فردجرم کبھی چیئرمین پی ٹی آئی کو پڑھ کر ہی نہیں سنایاگیا،نہ فردجرم پڑھا، نہ سیشن عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کا جواب لیاگیاتھا،جب ہم عدالت سے باہر چلے گئے تو فرد جرم اسکے بعد پڑھا گیا،7 دن دیے گئے تھے کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے،میں نے درخواست دی کہ سماعت پیر تک ملتوی کی جائے لیکن وہ ہماری استدعا مسترد کی گئی،ہائیکورٹ نے سات دن دیے اور اس عدالت نے تیسرے دن فیصلہ کر دیا،اس عدالت نے 15 منٹ میں فیصلہ جاری کر دیا،عدالت نے آرڈر جاری کرنا ہے تو پہلے لکھنا ہوتا ہے لیکن اس عدالت نے زبانی فیصلہ پہلے سنایا،کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بھی تیسرے روز سیشن عدالت نے فیصلہ سنادیا،چار گھنٹوں پر محیط سماعت کا فیصلہ عدالت نے 15 منٹ میں سنا دیا،کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سماعت کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھایا،جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ کیا سیشن عدالت نے آپ کو زبردستی کہا تھا کہ قابل سماعت ہونے کے معاملے پر دلائل دیں؟،آپ دلائل بھی دیتے رہے، چائے بھی پیتے رہے،یہاں جونیئر وکیل بھی موجود ہیں، ایمانداری دکھائیں،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں ایمانداری دیکھا رہاہوں،جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ آپ ایمانداری نہیں دکھا رہے، کچھ اور دکھا رہے ہیں،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت نے فیصلہ جاری کرنا ہوتا تو پہلے لکھا جاتاہے، آپ نے زبانی فیصلہ سنا دیا،کیا عدالت نے پہلے سے مائنڈ بنایاہوا کہ دلائل سنائیں تاکہ جلد فیصلہ سنایاجائے؟،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ اس عدالت سے کیس منتقل کرنے کی درخواست بھی دی لیکن عدالت نے اپنی کاروائی موخر نہیں کی،تاثر آرہا ہے کہ یہ عدالت بائسڈ ہے،گواہ ان اوتھ عدالت میں جھوٹ بول رہے ہیں،اگر گواہ عدالت میں بتا دے کیس سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے،میں نے گواہ کو کہا وہ ریکارڈ عدالت میں دیکھائے جو ملزم کیخلاف ہے،آپ کی عدالت نے کیس قابلِ سماعت ہونے کے معاملے پرتین روز میں فیصلہ سنا دیا،میں نے کہا پانچ روز میں فیصلہ سنا دیں، ہماری آپ نے نہیں سنی،اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس قابلِ سماعت ہونے پر 7 روز کا وقت تعین کیا، آپ تین دن میں فیصلہ سنا رہے، آپ ہمیشہ تاریخیں گنتے ہیں، چھٹیوں کو کون گنتاہے، عید اور عاشور کی چھٹیوں میں کیسے وکلاء سے کام کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟،وکیل خواجہ حارث نے سیشن عدالت کے قابلِ سماعت ہونے کے فیصلے کے مختلف پہلوو¿ں پر اعتراض پڑھے اور کہاکہ کیا توشہ خانہ کیس میں جانبداری نظر نہیں آرہی ؟، چیئرمین پی ٹی آئی کے دماغ میں عدالت کی جانب سے ایسا تاثر بنا دیاگیاہے، چیئرمین پی ٹی آئی کا عدالتی حق متاثر کیاجارہاہے،چیئرمین پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے گواہان سے بیان کا ریکارڈ مانگا تھا،سیشن عدالت کے فیصلوں کے حوالے سے مختلف عدالتوں میں ہم بھاگ رہے ہیں، موجودہ وقت میں سیشن عدالت کے حوالے سے 7 اپیلوں کی درخواستیں ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے ایک تاثر ہے کہ سیشن عدالت جلد فیصلہ سنا کر چاہتی ہےکہ تمام اپیلیں غیر موثر ہو جائیں، آپ کہتے ہیں آج فیصلہ سنا دوں گا، کل نہیں سنوں گا، کل فیصلہ ہو جائےگا، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ دو ٹرانسفر کہ درخواستیں اور 5 اپیلیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوائ ہیں،تمام درخواستوں اور اپیلوں کا مقصد سیشن عدالت میں اسٹے مانگنے کا ہے،سپریم کورٹ سے ایک دن کا اسٹے مانگاگیا،لیکن استدعا مسترد کردی گئی،ہر دائر درخواست کے ساتھ اسٹے کی استدعا ہے،قانون سب کے لیے یکساں ہے،قانون کے مطابق موجودہ صورتحال کے مطابق سیشن عدالت ٹرائل جاری رکھ سکتی ہے،ابھی ٹرائل جاری ہے، فیصلہ جاری نہیں ہوا، ٹرائل جاری رکھنے سے نہیں روکا جاسکتا،فردجرم عائد ہونے پر آج پہلی بار اعتراض سیشن عدالت میں اٹھایا،یہ ہائیکورٹ جائیں اور مطمئن کریں کہ فردجرم غلط عائد کی گئی،چیئرمین پی ٹی آئی نے تو خود الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثہ جات درج کروائے،صرف 342 کا بیان ریکارڈ کروانا، ان کا تو اپنا بیان ہے جو الیکشن کمیشن میں جمع ہے،ہر ٹرائل پر ملزم کی حاضری ضروری ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کتنی استثنی کی درخواستیں دائر ہوئیں؟ سب کے سامنے ہیں،چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دینے جو ان کے اپنے الفاظ میں عدالت لکھے گی،چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے وکلائ کے ہمراہ کھڑے ہو کر جواب دائر کرنا،ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کا کوئی جواز نہیں،الیکشن کمیشن کے وکیل نے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی صرف تاخیری حربے استعمال کرنا چاہتے ہیں،جج ہمایوں دلاور نے کہاکہ آج چیئرمین پی ٹی آئی کا 342 کا بیان قلمبند کرنے کے لیے سماعت مقرر تھی،آج تیسرا دن 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے تعین تھا،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلائ نے 342 کے بیان کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی، چیئرمین پی ٹی آئی اپنے وکیل خواجہ حارث کے ہمراہ عدالت پیش ہوئے،چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے بیان قلمبند کرنے کے لیے کچھ وقت مانگنے کی درخواست دائر کی گئی، چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق آج کل 180 کیسز میں پیش ہورہے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق عاشورہ کی چھٹیوں کے باعث 342 کا بیان نہیں بنایا جاسکا،چیئرمین پی ٹی آئی کا 342 کا بیان قلمبند کروانے کی بجائے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی گئی،چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے وکلاء کو 342 کے بیان قلمبند کروانے کے لیے کافی وقت دیاگیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے 3 مئی کے بعد سے سماعتوں کے فیصلے عدالت میں پڑھے،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کے مطابق سیشن عدالت تیزی سے ٹرائل چلا رہی،چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کے مطابق تیزی سے ٹرائل چلنے پر غیر جانبداری سے ٹرائل نہیں چل رہا،چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی سیشن عدالت پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا،سیشن عدالت نے ایسی ہی درخواستیں پہلے بھی مسترد کی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاءنے کچھ نئے دلائل آج نہیں بتائے، ایسی درخواستوں کا مقصد ٹرائل کو تاخیر کا شکار بناناہے،چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے سینئیر وکیل خواجہ حارث کارویہ عدالت کے سامنے عیاں ہے،چیئرمین پی ٹی آئی اور وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو صرف مایوس کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کا مقصد تاخیری حربے استعمال کرنا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے وکلاءعدالت کو مزید مایوس کرنا چاہتے تھے، دوسری جانب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا نے9 مئی واقعات کے بعد وفاقی دارالحکومت کے مختلف تھانوں میں درج6 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت میں توسیع کر دی۔ لسٹ میں نام کے بغیر وکلائ کےپیش ہوجانے پر عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ جن وکلائ کے نام لسٹ میں شامل نہیں ہیں، انہیں عدالت سے باہر بھیج دیاجائے، اگر وکلاءباہر نہ گئے تو پھر ہم ہدایت دیں گے کہ جن وکلاءکے وکالت نامہ پر دستخط ہیں صرف وہی کمرہ عدالت میں رہیں،جس کے بعد جج طاہر عباس سپرا چیمبر میں چلے گئے،دوران سماعت پی ٹی آئی وکلاءکے مابین لسٹ فراہمی سے متعلق تلخ کلامی ہوگئی اور شور سن پر جج طاہر عباس سپرا واپس کمرہ عدالت آگئے اور استفسار کیاکہ یہ شور کیساہے؟، اس موقع پر وکلاءنے جج سے معذرت کرلی، بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی اپنے وکیل سلمان صفدر اور دیگر کے ہمراہ عدالت پیش ہوگئے، سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہمیں پولیس شامل تفتیش نہیں کر رہی،ہمیں بلایا جاتا ہے مگر شامل تفتیش نہیں کیا،میری گزارش ہے ہم ڈاکومنٹ ساتھ لائے ہیں ہمیں شامل تفتیش کیا جائے اور پولیس تفتیش کوایگو کا مسئلہ نہ بنائے، ہم نے شامل تفتیش ہونے کی پوری کوشش کی لیکن شامل تفتیش نہیں کیا،پولیس نے آف دی ریکارڈ بتایا وہ محرم ڈیوٹیاں کررہے ہیں، دہشتگردی سے نمپٹیں یا آپ کو شامل تفتیش کریں، ادھر سائفر معاملہ پر چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف انکوائری اور طلبی کا ایف آئی اے نوٹس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج، رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کردیا۔چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں ایف آئی اے انکوائری کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیاگیا ہے کہ آڈیو لیکس سے متعلق سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے، ایسا معاملہ جو پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر التواءہے اس پر کریمنل پروسیڈنگ کرنا آرٹیکل 10اے کی خلاف ورزی ہے۔ علاوہ ازیں عمران نے توشہ خانہ کیس میں 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کی کارروائی رکوانے کیلئے اپیل دائر کی ہے۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عدالتی دائرہ اختیار پر پہلے فیصلہ ہونا ضروری ہے۔سپریم کورٹ میں فوری سماعت کیلئے چیئرمین پی ٹی آئی نے متفرق درخواست بھی دائر کی۔ متفرق درخواست میں کیس یکم اگست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم بیرسٹر گوہر اور ایڈووکیٹ شعیب شاہین اچانک چیف جسٹس کے سامنے عدالتی کارروائی کے دوران ایک مقدمہ کی سماعت کے بعد پیش ہوئے اور وکلا چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ توشہ خانہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رہے ہیں۔ اپیل کے ساتھ جلد سماعت کی درخواست بھی دے رہے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا پہلے اپیل دائر تو کریں پھر دیکھ لیں گے۔ آپ ماشاءاللہ سمجھدار وکلا ہیں، ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اسی روز دائر کی گئی درخواست کو نمبر بھی الاٹ کر دیا۔