سانحہ بہاولپور یونیورسٹی، تعلیمِ نسواں پر کاری ضرب تو نہیں؟

گلوبل ویلج:مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حوالے سے خوفناک انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ کیا حقائق بھی ایسے ہی ہیں؟ جو کچھ شائع ہوچکا ہے یا ہو رہا ہے اور نشر ہو رہا ہے اس میں کتنی مبالغہ آرائی ہے کتنی حقیقت ہے ؟۔ جو کچھ میڈیا میں کہاجا رہا ہے ،لکھا جا رہا ہے ،بولا جا رہا ہے اس سے ایک ایسا تاثر قائم ہوتا ہے کہ پوری کی پوری یونیورسٹی کی انتظامیہ اس معاملے میں ملوث تھی۔وہاں پر ہر سٹوڈنٹس، وہ لڑکا ہے یا لڑکی ہے وہ بھی جرائم میں یامتاثرین میں شامل ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ ایک ہی ڈگر پر کیا چل سکتے ہیں؟۔ اس یونیورسٹی کے طلبا و طالبات کی تعداد 65ہزار ہے۔ ان میں چالیس فیصد لڑکیاں ہیں گویا لڑکیوں کی تعداد 26ہزار ہے۔اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والی طالبات کی یا خواتین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو معاملات اب سامنے آئے ہیں یہ کئی سال سے اسی طرح سے چل رہے ہیں۔ اس اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکورٹی افسراعجاز شاہ کو گرفتار کیا گیا۔ ناکے پر پولیس نے ان سے آئس پانچ گرام کچھ ادویات بھی برآمد کیں۔ ایک لڑکی بھی ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ڈی پی او بہاولپور کے مطابق ان کی پولیس منشیات فروشوں کے خلاف مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ منشیات استعمال کرنے والوں پر بھی پولیس کی نظر ہو۔ اعدادوشمار بھی سامنے آ چکے ہیں کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایک سو تیرہ طلبہ اس کاروبار میں ملوث ہیں، منشیات پینے میں یا منشیات بیچنے میں۔ یہ طلبا و طالبات کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔ یہ کہا گیا کہ اعجاز شاہ سے جو میجر (ر) ہیں ان کے موبائل کا جب تجزیہ کیا گیا اس میں سے پچپن سو فحش ویڈیوز موجود پائی گئیں۔ اس سے پہلے بھی ایک پروفیسر صاحب گرفتار ہوئے تھے ان کے موبائل سے 72سو ایسی ہی ویڈیوزسامنے آئی تھیں۔لڑکیوں کو ہراساں کرنے میں اس یونیورسٹی کے گارڈز بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ایریاز میں جہاں لڑکا اور لڑکیاں اکٹھے بیٹھے ہوتے ان کی یہ گارڈز تصویریں بناتے اور وہ تصویریں اور چھوٹی موٹی ویڈیوز چیف سیکیورٹی افسر تک پہنچائی جاتیں وہ یا ان کے ماتحت افسر ان بچیوں کو اپنے پاس بلاتے ان میں سے کئی کوبلیک میل کرتے۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ جتنی بھی طالبات وہاں جاتی تھیں سب کو وہ لوگ اپنی لائن پر لے آتے تھے۔ کچھ ایسی طالبات بھی یقینا اس یونیورسٹی کا حصہ ہیں جو گریڈ حاصل کرنے کے لیے یاصرف پاس ہونے کے لیے یونیورسٹی کے متعلقہ حکام کے ہاتھوں استعمال ہو جاتی ہوں۔
اب تو یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اس دھندے میں کوئی وزیر صاحب اپنے بیٹے سمیت شامل ہیں۔ یہ چیزیں بھی سامنے آ چکی ہیں کہ میجر صاحب کا کوئی فارم ہا?س بھی تھا وہاں لڑکیوں کو لے جایا جاتااور ڈانس پارٹی ہوا کرتی تھی۔ ایک نکالے گئے ڈرائیور کی طرف سے بھی ایسا ہی کہا گیا ہے۔ جس ڈرائیورکو نکال دیا گیا ظاہر اس نے نہ تو وی سی کے حق میں بات کرنی تھی نہ یونیورسٹی انتظامیہ کے حق میں بات کرنی تھی۔ اس کی طرف سے بھی یہ کہاگیا کہ لڑکیوں کے ساتھ اسی طرح سے ہوتا ہے۔ ایک لڑکی طرف سے بھی کسی وی لاگر کو انٹرویو دیتے یہ کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کو واقعی ہی استعمال کیا جاتا ہے، گریڈ کے لیے۔ اور وہ جاب کے نام پر رات کو باہر بھی چلی جاتی ہیں آخر دو بجے کون سی جاب ہوتی ہے۔ اس لڑکی نے یہ بھی کہا کہ میں نے دو لڑکیوں کو یہ باتیں کرتے سنا کہ تم مہران پر جا رہی ہو تو اوڈی پر واپس آنا۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ جو لڑکی یہ بات کر رہی ہے وہ اسی یونیورسٹی کی سابقہ سٹوڈنٹ ہے۔ 
اس میں کسی قسم کی گنجائش کوئی نہیں رہ جاتی کہ جو کچھ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہو رہا ہے یہ ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے۔ معاشرے میں یہی کچھ ہوتا ہے ہر ادارے میں ایسا ہی ہوتا ہے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔لیکن جس طریقے سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اس یونیورسٹی میں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے پورے کا پورا سٹاف ایسے کاموں میں ملوث ہے اور ہر طالبہ بلیک میل ہو رہی ہے یا اپنی مرضی سے وہ کسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ کچھ لڑکیاں یونیورسٹی سے باہر ہوسٹل میں بھی رہتی ہیں یونیورسٹی کے اندر بھی اپنے ہوسٹل بھی ہیں۔ان ہوسٹلز میں انتہائی ناقص قسم کی سیکورٹی ہے کسی قسم کے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ خصوصی طور پر جو لڑکیاں دیہات سے آتی ہیں ان کے والدین کو اتنی اویئرنس نہیں ہوتی۔ ہو سکتا ہے وہ لڑکیاں زیادہ تر ان کاموں میں ملوث ہوں۔ سوال یہاں پر یہ ہے کہ 26ہزار لڑکیوں میں سے ایسی کتنی ہوں گی جو اس طرح سے استعمال ہوتی ہیں یا ان کو استعمال کیا جاتا ہے یا وہ گریڈ لینا چاہتی ہیں یا وہ بلیک میل ہو جاتی ہیں۔ میں پھر زور دیتا ہوں کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ سو فیصد لڑکیاں ایسے کاموں میں ملوث ہوں اور سو فیصد ہی یونیورسٹی کی انتظامیہ چپڑاسی سے لے کر وی سی تک وہ بھی ایسے کاموں میں حصے دار ہوں۔ 
ایسے لڑکیوں اور سٹاف کی تعداد انتہائی کم ہے۔ کتنی ہو گی آپ اندازہ کر لیں کہ اگر ایک سو تیرہ لڑکے منشیات میں ملوث تھے تووہ ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ اسی طرح سے جو جرائم یونیورسٹی میں ہو رہے ہیں یا کسی بھی ادارے میں ہوتے ہیں ، اتنے یا اس سے تھوڑے کم ہو سکتے ہیں کہ لوگ جرائم میں ملوث ہوں۔ 65ہزار کا اگر دو فیصد نکالا جائے تو 13سو بنتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ میں سمجھتا ہوں کہ 13سو بھی زیادہ تعداد ہے ایسے کاموں میں ملوث لوگوں کی۔ ایک بھی اگر اس میں ملوث ہو تو کیوں ہو اس کے خلاف تو سخت ایکشن کی ضرورت ہے۔ یہاں توسینکڑوں میں ہیں۔لیکن جو سکینڈل سامنے آیا ہے یا جس طریقے سے اس کو اچھالا جا رہاہے اس سے تو ہر ایک لڑکی کی طرف لوگ انگلیاں اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔ 
ہمارے معاشرے میں جب شادیاں ہوتی ہیں تو لڑکے کے والدین، لڑکی کے والدین دوسروں کے خاندان کے بارے میں ایک ایک ایک چیز کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔اگر اس معاملے کو یہاں پر چھوڑ دیا گیا پوری تحقیقات نہ ہوئی تو اس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ہر لڑکی کے بارے میں یہی ایک سوچ سامنے آئے گی کہ یہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی سٹوڈنٹ رہی ہے۔ آپ اسکامستقبل دیکھ لیں کتنا مخدوش ہو سکتا ہے۔ ایسی چیزوں سے بچنے کے لیے اس سارے معاملات کی تحقیقات ہائی لیول پر بہت ہی ضروری ہیں۔
 اس سے پھر سردست کیا نقصان ہوا ہے۔ یونیورسٹی کی ساکھ بْری طرح سے تباہ ہوئی ہے۔ جو سٹوڈنٹ اس یونیورسٹی سے وابستہ ہیں وہ بھی دوسری یونیورسٹیوں میں جانے کے لیے سوچ رہے ہوں گے۔آج کل داخلے ہونے والے ہیں ان پر بہت زیادہ منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کا فائدہ کس کو ہوگا ظاہری بات ہے کہ جو وہاں پر پرائیویٹ ادارے ہیں۔ یہ بھی ایک خبر ہے کہ یہ سارا کچھ یاجو سکینڈل سامنے آیا یہ ان مافیاز کی طرف سے پلانٹ کیا گیا تھاجو یونیورسٹی کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
اور ہمیں اس پوائنٹ کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ کچھ رجعت پسندمذہبی پارٹیاں خواتین کو تعلیم دلوانے کے حق میں نہیں ہیں۔اور آج تک بہاولپور ہی نہیں پاکستان کے دیگر علاقوں اور شہروں میں ہمیشہ خواتین کی ایجوکیشن کو ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔یہ ایک ایسا منفی تاثر ہے کہ اس کے اثرات عشروں تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ رہیں گے۔اور اس کا عمومی نقصان خواتین اور ان کی تعلیم کو ہوگا،لہٰذا حکومت اگر کہیں موجود ہے تو اس کو معاملے پر ٹھنڈے دل سے مگر ایک منظم طریقے سے ایسے سانحات کے پیچھے چھپے مافیا کی سرکوبی کرنا ہوگی، وگرنہ یہ وہ زہر ہے جو سرائیت کر گیا تو اس کے مضمرات نسلوں تک بھگتنے پڑیں گے۔اور پاکستان جیسا ملک جہاں پر خواتین کی ایجوکیشن پہلے ہی رجعت پسند طبقات کے لیے ایک عفریت بنی ہوئی ہے، ا س کو مزید مسائل کا سامنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن