ڈاکٹرعارفہ صبح خان :تجا ہلِ عا رفانہ
پاکستان دنیا میں ٹیکس ادا کرنے والا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ اور ہر چیز پر عوام ٹیکس ادا کرتی ہے۔ ہزاروں ٹیکس ایسے ہیں جو سرے سے عوام پر لاگو ہی نہیں ہوتے لیکن عوام سے یہ ناجائز اور ناروا ٹیکس بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ پاکستان اِس لحاظ سے بھی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اتنے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے با وجود عوام کو ایک بھی سہو لت میسر نہیں ہے۔ مو ٹر وے اور رنِگ روڈ سے گزریں تو عوام کو جہاں اتنا مہنگا پٹرول خرچ کر نا پڑتا ہے وہاں ہر چند کلو میٹر کے بعد ٹول پلازے پر انتہا سے زیادہ ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد واپس آکر چلے جائیں تو جیب خالی ہو جاتی ہے۔ رنِگ روڈ پر بھی غیر ضروری ٹیکس لگا کر عوام کو پاگل کر رکھا ہے۔ رنگ روڈ پر کئی جگہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ نا ہی مناسب فا صلوں پر سائن بورڈ لگا رکھے ہیں کہ عوام راستہ نہ بھٹکے۔ سائن رورڈز مناسب فا صلوں پر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کبھی غلطی سے سیالکوٹ، ملتان، اسلام آباد، فیصل آباد کی سا ئیڈ نکل جاتے ہیں۔ چالیس پچاس کلو میٹر کے بعد پتہ چلتا ہے کہ غلط آ گئے ہیں، پھر چا لیس پچاس کلو میٹر آگے جاکر کسی انٹر چینج سے واپسی پر اتنا ہی فا صلہ ووبارہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ٹول پلازوں پر دو بار ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ سو کلو میٹر کے فا صلے کا پٹرول کا خرچہ برا دشت کرنا پڑتا ہے۔ اتنے ٹیکس وصول کر کے حکومت عوام کو کیا آسانی اور سہولت فراہم کر رہی ہے جبکہ صرف ٹو ل پلازوں سے ملک کو روزانہ کروڑوں روپے وصول ہو تے ہیں۔ حکومت نے قسم کھا رکھی ہے کہ عوام کی بُوٹیاں ہی نہیں ہڈیاں بھی چیچوڑکر کھا جائیں گے اور چیچوڑی ہو ئی ہڈیوں کا منجن اور سُرمہ بنا کر بیچ دیں گے۔ نومبر 2022ء سے شور مچا رکھا تھا کہ روس سے سستا پٹرول منگا رہے ہیں۔ آٹھ ماہ بعد رُو رُو کر روس سے تیل آیا۔ دو تین جہاز آ گئے جو غا لباً چا لیس روپے لٹر کے حساب سے ملے لیکن آج روس سے سستا تیل منگا نے کا شور کرتے دس ماہ ہو گئے۔ کو ئی پوچھے کہ اتنی پروجیکشن اور شور شرابہ کر کے عوام کو کیا ریلیف دیا ؟؟ عوام کو تو80 یا 90 روپے لٹر تیل ملنا چا ہیے تھا لیکن عوام تو 263 روپے لٹر کا پٹرول اپنا خون پسینہ خرچ کر کے خرید رہی ہے۔ حکومت نے عوام کو جو چُونا لگا یا ہے۔ اُس کی دنیا بھر میں مثا لیں ملنا مشکل ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ سب سے پھا پھا کُٹنی آئی ایم ایف دیکھیں جنھیں عوام کی آمدنی، نوکری ، پینشن، اخراجات اور عائد ٹیکسوں کا علم ہے لیکن حکومت کے اللّے تلّلوں اور اشرافیہ کی عیاشیوں سے کو ئی دلچسپی نہیں ہے۔ ابھی دو کروڑ سے زیادہ مالیت کی ایک گاڑی،جو کے 23 ڈپٹی کمشنرز کو یہ گا ڑیاں دی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر مراعات الگ ہیں۔ نوازشات کا ایک خوفناک سلسلہ جس میں اربوں روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے تا کہ الیکشن میں مطلوبہ نتا ئج حا صل کیے جاسکیں۔ ہاں پینشنرز کی پینشن دو چار ہزار روپیہ اضافہ کرنے سے خزانہ پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ ایسے میں جبکہ مہنگائی تیس فیصد بلند سطح پر کر دی ہے اور ادویات سو فیصد مہنگی کر کے موت کو خود اہتمام کر دیا ہے تو آئی ایم ایف اندھا ہے کہ بجلی گیس، پرا پرٹی ٹیکس اور دوسری صوبائی اور وفاقی ڈیوٹیز میں اتنا اضافہ کر دیا۔ اتنے ٹیکس لگا دئیے ہیں کہ عوام کے لئیے سا نس لینا مشکل ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف حکومت کے شا ہانہ اخرا جات پر اعتراض نہیں کرتا۔ آئی ایم ایف حکومت کے غیر ضروری، غیر مصرف او ر لاحاصل غیر ملکی دوروں پر اعتراض نہیں کرتی۔ بلاول بھٹو ایک سال میں سو سے زیادہ غیر ملکی دورے کر چکے ہیں۔ ساتھ میں حنا ربانی کھر اورو فد ہوتا ہے۔ پورے شا ہانہ پرو ٹوکول سے جاتے ہیں ۔ ان دوروں سے ابھی تک پاکستان یا عوام کو کیا ملا ہے۔ شہباز شریف ایک سال میں چا ر درجن دور ے کر چکے ہیں۔ اس سے عوام کے کیا ملا ہے۔ صدر امارات شیخ محمد بن زید الہنیان سے سب تعزیت کرنے ابو ظہبی پہنچ گئے۔ پاکستان کی طرف سے ایک آدمی کافی نہیں تھا؟ آئی ایم ایف نے پاکستان کو جو چونا لگا یا ہے۔ اُس سے پاکستان کی تین نسلیں سزا بھُگتیں گی۔ کو ئی پوچھے کی آئی ایم ایف سے عوام کو کیا ریلیف ملا ہے۔ آئی ایم ایف تو پاکستانیوں کا قا تل ہے۔ پاکستا نیوں کے لیے بد ترین سزا ہے۔ دشمن بھی ایسا نہیں کرتا جیسا آئی ایم ایف نے پاکستانیوں کے گر د شکنجہ کسا ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کوکیوں پابند نہیں کیا کہ وہ اپنا تمام پروٹوکول، مرا عات، فری کے بِلز، تنخواہیں، فنڈز، گا ڑیاں، کو ٹھیاں، ملازمین ختم کرے۔ اپنی تنخواہ بھی ایک گریڈ ۱۷ کے ملازم کے برا بر رکھے۔ حکومت تمام عیاشیاں ختم کرے۔ آئی ایم ایف کو عوام کی نوکریوں، تنخواہوں اور پینشن سے دشمنی ہے۔ حکومتی عہدیدار محض چرب زبانی کر کے عوام کو الو بنا رہے ہیں۔ جہاں ایک وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہیں وہاںلیپ ٹاپ بانٹے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے ایک دس کلو آٹے کا تھیلا اور دال سبزی لینا حرام ہو گیا ہے۔ مگر لیپ ٹاپ با نٹے جارہے ہیں کیونکہ اس میں بھاری کمیشن ہاتھ آتاہے۔ سیکھنا ہے تو غیر مسلموں سے سیکھیں ۔ ولادیمر پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ یوکرائن کے بجائے غریب افریقی ملکوں کو پچاس ہزار ٹن مفت اناج بھیج رہا ہے۔ کئی ممالک کو روس نے سستا ترین تیل بھی دیا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن اسمیں وزارتِ پٹرولیم کی خوب دہاڑی لگی ہو ئی ہے۔ اپنے مفادات والے سارے 29 بَل محض ایک گھنٹے میں پارلیمنٹ میں پاس کرا لیے لیکن اس میں کرپشن کا کوئی بل منظور نہیں کرایا گیا کہ کرپشن پر پھانسی کی سزا کا بِل بھی منظور کرا لیتے لیکن ظاہر ہے کہ ساری اشرافیہ کرپشن کے بل بوتے پر ہی تو ارب پتی اور کھرب پتی بنی ہے۔ اُس پر شہباز شریف روز لطیفے سناتے ہیں کہ مجھے غریب کا بڑا درد ہے ۔ میں عوام کی خدمت کر رہا ہوں۔ مجھے عوام کی تکلیف سے نیند نہیں آتی۔ مزید مکھن لگا تے ہو ئے کہتے ہیں کہ ترقی کے حوالے سے میرا نظریہ لوگوں کے معیارِ زندگی بلند کرنے سے جڑا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیر اعظم بنا کر جتنا چونا آپ نے عوام کو لگا یا ہے اور عوام کا معیارِ زندگی جتنا پست ہوا ہے۔ پوری تا ریخ میں عوام نے اتنی سختیاں مصیبتیں نہیں جھیلیں۔ آپ تو نمک پاشی کر رہے ہیں۔ یہ ہماری بد قسمتی کی انتہا ہے کہ ہمیں کبھی اچھے حکمران نصیب نہیں ہو ئے لیکن اس بار آپ نے مکھن کی آڑ میں عوام کو جتنے لطیفے سنائے ہیں اور جتنی مہنگائی کی ہے۔ ٹیکس لگا ئے ہیں۔ اُس کے بعد عوام نے کان پکڑ لیے ہیں جو مرضی نگران سیٹ اپ بنا لیں۔ عوام بھی اس بار حساب چُکتا کرے گی۔