برادر ملک ترکی میں ان دنوں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ چھوٹے بڑے کئی شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر ہیں۔ یہ مظاہرے نہ تو کسی عالمی واقعے کے حوالے سے ہیں نہ ان کا تعلق ملک کی اندرونی سیاست سے ہے۔ یہ مظاہرے ترک صدر کے ایک حالیہ غیر سیاسی حکم کے خلاف ہو رہے ہیں۔ ان مظاہروں کو احتجاج سے زیادہ فریاد کا نام دیا جا سکتا ہے۔
ترک صدر نے گزشتہ ہفتے حکم دیا کہ ملک میں موجود تمام کتّے اور بلّیاں ہلاک کر دی جائیں۔ ترک عوام کی اکثریت روایتی طور پر جانوروں سے پیار کرتی ہے۔ عوام چنانچہ حیرت اور صدمے میں ہیں کہ یہ کیا حکم آ گیا۔ اب ملک گیر مظاہرے ہو رہے ہیں کہ یہ حکم واپس لیا جائے۔ ترک صدر عوامی احتجاجی مظاہروں کو پسند نہیں کرتے چنانچہ ہر مظاہرہ کرنے والے کو سخت سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ پچھلے دنوں فلسطین کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ حکومتی جماعت نے ان مظاہرین کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کر دیا۔ دیکھئے، بلّیوں اور کتّوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
انسانی حقوق اور حیوانی ہمدردی کے سینکڑوں عالمی ادارے ترک صدر سے یہ حکم واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ترک صدر ڈٹے ہوئے ہیں اور ملک سے ان جانوروں کا وجود ختم کرنے کے عزم کا بار بار اعادہ کر رہے ہیں۔
_____
کچھ ایسے ہی مطالبات دنیا بھر کے انسانی حقوق اور حیوانی ہمدردی رکھنے والے لوگ چین سے بھی کر رہے ہیں۔ چین میں جانوروں کو 72،72 گھنٹے تک ٹارچر کر کے ہلاک کرنے اور اس ساری کارروائی کو لائیو نشر کرنے کا کاروبار بڑھتا جا رہا ہے۔ لاکھوں شائقین بھاری رقم ادا کر کے ان ویب سائٹوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں جن میں یہ سب کچھ دکھایا جاتا ہے۔ اس ہفتے بھی ان ’’ٹارچر سوسائٹیوں‘‘ کی طرف سے تازہ کارروائیاں لائیو نشر کی گئیں جن میں سے کچھ کے بعض حصے (کلپ) حیوان دوست تنظیموں نے اپنی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیں تاکہ دنیا کو اس ظلم پر متوجہ کیا جائے۔ ایک کلپ میں ایک شخص نے بلّی کے ایک مہینے کی عمر کے ایک بچے کو ٹب میں ڈال رکھا ہے اور ہر دو منٹ بعد وہ اس پر گرم کھولتا ہوا پانی ڈالتا ہے۔ بلّی کا بچہ ناقابل بیان حد تک تڑپتا اور ڈرائونی آواز میں چیختا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ اسی طرح اس پر گرم پانی انڈیلتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے۔ دوسری ’’لائیو نشریات‘‘ میں بلّی کے گیارہ بچوں کا پہلے ایک ایک ہاتھ کاٹا جاتا ہے، پھر دوسرا، پھر ان کی آنکھیں چمچ سے نکالی جاتی ہیں، پھر انہیں زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے بلّی کو تین بچوں سمیت پکڑا۔ ہر بچے کو باری باری گرائنڈر میں، بلّی کے سامنے گرائنڈ کیا پھر جو ملغوبہ بنا وہ پنجرے میں بند ماں کے سامنے پیالی میں رکھ دیا۔ وہ بلّی دیکھنے میں زندہ لگی نہ مردہ لگی۔ اسی طرح کتوں کے کئی بچے ہتھوڑوں سے کچل کچل کر ، کئی گھنٹے کی کارروائی کے بعد ہلاک کئے گئے۔
خود چین میں اس کاروبار کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ پڑوسی ملک جاپان کے شہر اوساکا میں بھی جلوس نکلا۔ امید ہے چینی حکومت اس کا نوٹس لے گی اور مناسب قانون سازی کرے گی۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں، وہ کون ہیں اور جو لوگ اس وحشیانہ ظلم کا تماشا دیکھتے، خوش ہوتے اور لذّت لیتے ہیں، وہ کس قسم کے انسان ہیں۔ یہ راز اپنی جگہ ہے۔ اس ننّھے منّے سے گولے عرف کرہ ارض عرف نیلے سیارے میں جو کچھ ہوتا آیا ہے اور ہوتا جا رہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا، اس کے اسرار خدا ہی جانتا ہے جس نے یہ کائنات بشمول نیلا سیارہ پیدا کی۔
_____
خان صاحب نے کہا ہے کہ وہ کبھی فوج کے خلاف نہیں رہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی فوج کی مخالفت کی، نہ ہی گالی دی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جو بھی کیا یا کہا، وہ محض تنقید تھی۔
تنقید دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو برائے اعتراض کی جائے۔ اسے محض تنقید کہتے ہیں، دوسری وہ جو علمی و ادبی و فلسفیانہ تحریر اور سوچ پر کی جاتی ہے، اسے تنقید بھی کہتے ہیں اور نقد و جرح بھی۔ خان صاحب نے جو ’’تنقید‘‘ کی، وہ غالباً نہ تو پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہے نہ دوسری قسم سے بلکہ یہ کوئی الگ قسم ہے جسے ہم تیسری قسم قرار دے سکتے ہیں۔
بہرحال، اس وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ 9 مئی کا دن دراصل یوم تنقید تھا۔ اس روز تنقید نگاروں، ناقدوں اور نقادوں کی بڑی تعداد نے غول در غول فوج کی 232 تنصیبات پر تنقید نگاری کی۔ کچھ تنقید نگار جی ایچ کیو میں داخل ہوئے۔ بعض پْرجوش نقادوں نے میانوالی کے فوجی ہوائی اڈے پر تنقید کی۔ گرمء تنقید سے اس فوجی اڈّے کے بعض حصوں میں آگ لگ گئی۔ تنقید نگاروں کا ایک غول کور کمانڈر ہائوس پر تنقید نگاری کیلئے پہنچ گیا۔ تنقید کی حدّت سے کور کمانڈر ہائوس جل گیا۔ اسی طرح تنقید نگاروں کی ایک فوج ریڈیو پاکستان پشاور جا پہنچی جس کی آہ گرم سے پوری عمارت جل کر خاکستر ہو گئی۔
کہا جا رہا ہے، تنقید نگاروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ظاہر ہے قطعی غیر منصفانہ مطالبہ ہے۔ تنقید کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ پاک فوج کو بھی خیرمقدمی بیان جاری کرنا چاہیے۔
_____
پارلیمنٹ میں ایک قانون پیش ہوا ہے جو قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اطلاع ہے کہ یہ قانون اسی ہفتے منظور کر لیا جائے گا۔
قانون منظور ہوا تو سپریم کورٹ کے 8 ججوں کا وہ فیصلہ غیر موثر ہو جائے گا جس کے تحت پی ٹی آئی کو مخصوص سیٹیں الاٹ کی گئی تھیں۔ فیصلے کے تحت آزاد ارکان اسمبلی کو جو تین دن میں کسی پارٹی میں شمولیت نہیں کر سکے تھے، مزید 15 دن دے دئیے گئے کہ جو فیصلہ وہ تین دن کی آئینی مدّت میں نہیں کر سکے، 15 دن میں کر لیں۔
پارلیمنٹ نے اس فیصلے کو آئین سازی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آئین سازی یا اس میں رد و بدل پارلیمنٹ کا اختیار ہے، کسی اور کا نہیں۔ 8 جج ، دوسری طرف، بزبان حال یہ کہہ رہے ہیں کہ آئین وہ ہے جو ہم کہہ دیں۔ پارلیمنٹ کو آئین سازی کا اختیار نہیں، یہ ہمارا اختیار ہے۔ آئین بھی ہم ہیں، آئین ساز بھی ہم، آئین کے شارح بھی ہم اور آئین کی قوت نافذہ بھی ہم۔
گویا دو اداروں میں جنگِ بالادستی چھڑا چاہتی ہے۔ اس جنگ میں کون بالا دست ہو گا؟۔ اس سوال کا جواب تو کوئی ’’بالادست‘‘ ہی دے سکتا ہے۔
9 مئی کا یوم تنقید اور جنگِ بالادستی
Aug 01, 2024