ایک جانب حکومت بلوچستان میں پائیدار امن کی کاوشوں میں مصروف ہے تو دوسری جانب ملک دشمن قوتیں بھرپور طاقت کیساتھ بلوچستان میں فساد پیدا کرنے پر تلی ہوئی ہیں سیاسی عدم استحکام آئے روز کے دھرنے دہشتگردی کے بڑھتے واقعات مہنگائی قدرتی افات کرپشن بیڈ گورننس بلوچستان میں امن کے قیام میں بہت بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں وزیر اعلی میر سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ سمیت پیپلز پارٹی اور حکمران اتحادی مسلم لیگ ن کے تنظیمی وباہمی اختلافات ہوں یا اپوزیشن کے مطالبات سیاسی استحکام ممکن ہو پارہا اسی کا فائدہ اٹھا کر صوبے کے حالات مخدوش کئے جارہے ہیں ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت بلوچ عوام میں احساس محرومی اور عدم تحفظ کو مزید گہرا اور تلخ بنانے کی سازش ہورہی ہے امن و امان کی صورتحال تو چلو اپنی جگہ ہے لیکن سیاسی قوتوں کی جانب سے جس طرح بلوچستان میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ سامنے آ رہا ہے وہ قابل غور و ندامت ہے وزیر اعلی بلوچستان کی تبدیلی کی افواہیں ہوں یا پیپلز پارٹی کے تنظیمی اختلافات ہوں حکمران اتحاد میں اقتدار کی کھینچا تانی اور مسلم لیگ ن کی عدم دلچسپی نے صورتحال کو گھمبیر بنایا ہوا ہے سب سے پہلے بلوچستان کی قیادت کو مرکز کی جانب سے مینڈیٹ ملنا ضروری ہے صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو بلوچستان میں تنظیم کو بااختیار بنانا ہوگا اور وزیراعلی سرفراز بگٹی کے سر پر تبدیلی کی لٹکتی تلوار کی وجہ سے ہونے والی چہ مگوئیاں ختم کرکے پارٹی کے اختلافات دور کرنا ہوں گے اسی طرح مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی صورتحال کی سنگینی کو بھانپنے کی ضرورت ہے جب تک سیاسی قیادت معاملات کی آنرشپ لینے کیلئے عملی طور پر تیار نہیں ہوگی بلوچستان میں قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھا ئی نہیں دے رہا شاید اسی وجہ سے بلاول بھٹو نے تنظیمی اختلافات کا نوٹس لیا ہے اور پارٹی کے اہم رہنما خورشید شاہ کو بلوچستان کے دورہ پر بھیجا۔ خورشید شاہ نے اپنے دورے کے دوران معاملات کو سمجھنے کیلئے مختلف رہنماؤں سے ملاقات کی ہے تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما ترقیاتی فنڈز کی تقسیم پر اختلافات کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی بلوچستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی میں اختلافات کافی عرصے سے تھے لیکن اب فنڈز کی تقسیم کی وجہ سے ان اختلافات میں شدت آئی ہے یہ امر یقینی طور پر قابل افسوس ہے کہ بلوچستان میں عوام کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے دعویدار فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم پر باہمی اختلافات کا شکار ہیں اوربلاول بھٹوکے نوٹس لینے کے باوجود معاملات سنبھل نہیں پارہے۔ویسے تو ملک بھر میں سیاسی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے لیکن بلوچستان میں حکومت کی نااہلی کیو جہ سے پیدا ہونے والی صورتحال نے بلوچستان کی عوام کو شدید مایوس کیا ہے۔
ان حالات کے باوجود چین بلوچستان میں قیام امن اور پائیدار سیاسی استحکام پرعزم ہے یہی وجہ ہے کہ سی پیک فیز ٹو کی جانب دونوں ممالک گامزن ہیں چینی قونصل جنرل یانگ یو ڈونگ نے کراچی پریس کلب میں بلوچستان کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خطاب میں واضح کیا ہے کہ سی پیک پاکستان کی معاشی خوشحالی کا سبب ہوگا گوادر میں احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کو گوادر کے پراجیکٹس کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اسی طرح سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بلوچستان کے حوالے سے چینی سفارت خانے میں ایک تقریب میں شرکت کی سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ چینی حکومت کے تعاون سے بلوچستان میں 'شی پاور' منصوبے کا آغاز لائق تحسین ہے،منصوبہ پاکستان اور چین کی مضبوط بنیادوں پر استوار دوستی کی ایک اور زندہ مثال ہے۔ چینی سفارتخانے میں بلوچستان کی خواتین کی صحت عامہ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سکولوں کی بچیوں میں 20 ہزار ہیلتھ کٹس کی تقسیم سے نا صرف صحت سے جڑے امور سے واقفیت بڑھے گی بلکہ یہ بچیوں کی پرورش میں بھی معاون ثابت ہو گی۔
صحت مند اور تعلیم یافتہ خواتین خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہیں۔پاکستان اور چین نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔چین کی پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی و خوشحالی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں توسیع خوش آئند ہے ۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان اس دوستی کو سبوتاژ کرنے کی ہر سازش کو ناکام بنانے کیلئے پر عزم ہے۔پاکستان اور چین نے ہمیشہ دنیا میں امن کے فروغ کی بات کی ہے۔ بلوچستان میرے دل کے بہت قریب ہے۔ بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل کا حل ہمیشہ ترجیحات میں شامل رہا ہے۔پاکستان کی ترقی بلوچستان کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے،اس کیلئے چین کا تعاون لائق تحسین ہے۔چینی سفیر جیانگ زائیڈونگ نے تقریب میں شمولیت پر سپیکر قومی اسمبلی کا شکریہ ادا کیا۔
بلوچستان اسمبلی کی جانب سے اسی طرح کی آوازیں ابھر کر سامنے آئی ہیں جو یقینی طور پر خوش آئند ہیں ۔رواں ہفتے جاری بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ سیاستدان اپنی تمام تر نااہلیوں ناکامیوں کے باوجود پرعزم ہیں اور حقائق سے آشنا ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے کہا کہ سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کے خلاف سازشوں کو ناکام بنائیں گے حکومتی اراکین کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی مذاکراتی عمل پر یقین رکھتی ہے صوبے کو آگ میں دھکیلنے والوں کا معلوم ہے نیشنل پارٹی کے رکن خیر جان بلوچ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ مسائل کا حل تلاش کرے۔ پاکستان کی ترقی اور بلوچستان کا امن ضروری ہے۔ صوبے کو اپنی انا کی بجائے سیاسی انداز میں چلانا چاہیے ۔ اس جذبے کے تحت وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک بار پھر ناراض بلوچوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ ہم ان کی ہر بات ماننے کو تیار ہیں لیکن انہیں حکومتی حق کو تسلیم کرنا ہوگا۔ ہم کسی جتھے کو شہروں اور سڑکوں کو کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ بلوچستان اسمبلی میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ گوادر میں اجتماع کا مقصد پرامن احتجاج نہیں بلکہ اس اہم شہر کو یرغمال بنا کر ترقیاتی منصوبوں چینی سرگرمیوں اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کے آغاز کو روکنا تھا۔ وزیر اعلی نے مزید کہا کہ احتجاج کرنے والوں نے تسلیم کیا تھا کہ وہ جلسے جلوسوں کیلئے حکومت سے اجازت لیں گے مگر انہوں نے حکومت سے تعاون نہیں کیا۔
بیان کردہ یہ تمام سرگرمیاں ظا ہر کرتی ہیں کہ تمام سٹیک ہولڈرز ایک نکتے پر متفق ہیں کہ بلوچستان میں امن اولین ترجیح ہے لیکن تخریبی سرگرمیاں کرنے والے امن کو سبوتاژ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان کو پاکستان مخالف قوتوں کی آشیر باد حاصل ہے تاہم مقتدرہ اور سیاسی قیادت نے بلوچستان میں امن قائم کرنے کی ٹھان لی ہے اور جلد یا بدیر یہ ہونا ہی ہے اسکی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور کرنے پر سب کا اتفاق ہوچکا ہے۔ اور اس مقصد کیلئے ہونے والی تمام دیدہ و نادیدہ کوششیں جلد ہی بارآور ثابت ہونے کی امید ہے۔
حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف سے کئے جانے والے معاہدے کی منظوری کیلئے چین سے لئے گئے قرض کو پانچ برس کیلئے ری شیڈول کرنے کی شرط بھی پوری ہو چکی ہے۔ مگرسی پیک سے جڑا گوادر ایک بار پھرپاکستان مخالف قوتوں کی زد میں ہے امید ہے کہ جلد ہی یہ بحران اپنے انجام کو پہنچ جائے گا لیکن سیاستدانوں کو بھی اسکے لئے کردار ادا کرنا ہے۔دریں اثناوزیر داخلہ بلوچستان نے گوادر میں آل پارٹیز کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے14اگست کو گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے افتتاح سے پاکستان بالخصوص بلوچستان کی ترقی کا ایک نیا باب کھلے گا وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے گوادر میں آل پارٹیز کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ملاقات میں مختلف آل پارٹیز کے رہنماؤں، قبائلی عمائدین اور تاجربرادری شریک ہوئے، ملاقات میں ڈپٹی کمشنر احمود الرحمن اور ڈی آئی جیز سمیت اعلی حکام شریک ہوئے۔ملاقات میں حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلا، بی این پی کے ماجد سورابی، غلام حسین دشتی اور مولابخش موجود تھے، ملاقات میں احتجاج اور امن اومان کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیر داخلہ بلوچستان نے پارٹیز رہنماؤں کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر حکومت نے ہر فورم پر نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ حل کے حوالے سے اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں۔ صوبائی وزیرداخلہ نے وفد سے کہا کہ گوادر کی ترقی وخوشحالی کو روکنے کے لئے سازیشیوں کوروکنا ہوگا۔قانون ہاتھ میں لینے والے مظاہرین ہمارے صبر و تحمل کا مزید امتحان نہ لیں۔