مانچسٹر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اگلے روز مانچسٹر پولیس کے افسران نے ایک پاکستانی نڑاد خاندان کے دو نوجوانوں پر مبینہ طور پر انکی والدہ کے سامنے جس طرح وحشیانہ اور بدترین تشدد کرتے ہوئے ان پر مبینہ طور پر Taser استعمال کی اس واقعہ کی جس قدر مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ اس حقیقت سے بلاشبہ انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی بھی واقعہ‘ گفتگو یا کسی بھی طرز عمل کو چھپانا ممکن نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ اس افسوسناک واقعہ کی اب تک متعدد ویڈیوز منظرعام پر آچکی ہیں۔
23 جولائی 2024ء کی رات مانچسٹر ایئرپورٹ پر ہونیوالے اس واقعہ پر مزید روشنی ڈالنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ آپ کو برطانوی پولیس کو مہیا کئے گئے ہتھیار Taser کے باے میں اختصار سے بتا دیا جائے کہ یہ ہے کیا؟ بنیادی طور پر یہ ایک ہائی وولٹیج برقی شاک ہے جو ملزموں کے منفی طرز عمل اور انکی باڈی لینگوئج کے مطابق جسم کے مخصوص حصوں پر استعمال کرنے کا پولیس اختیار رکھتی ہے تاکہ خطرناک ملزموں پر قابو پایا جا سکے۔ بعض حوالوں سے اسےGun Stun کا نام بھی دیا گیا ہے۔ مگر یاد رہے کہ سٹن گن کا شمار خطرناک ہتھیاروں میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال صرف پولیس ہی کر سکتی ہے جبکہ عام شہریوں کیلئے یہ ایک غیرقانونی ہتھیار ہے جس کا استعمال قانوناً جرم ہے اور اس جرم میں بعض حالتوں میں دس برس تک قید کی سزا یا بھاری جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس ہتھیار کے لائسنس یا اسے فروخت کرنے کیلئے سیکرٹری آف سٹیٹ سے اجازت لینا لازمی ہے۔
جس روز یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا اور واقعہ کی پہلی ویڈیو منظر عام پر آئی‘ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں برطانوی پولیس کی اعلیٰ روایات کیخلاف منفی تجزیوں کا آغاز ہو گیا۔ ویڈیو میں پولیس افسران کے دو نوجوانوں پر بوٹوں سے بہیمانہ تشدد اور Taser کے مبینہ استعمال کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ایئرپورٹ پر موجود دیگر مسافروں نے بھی بغیر وقت ضائع کئے ویڈیو تو بنائیں مگر اس اندوہناک واقعہ کے پس پردہ بنیادی عوامل کیا تھے؟ ویڈیو کرنے والے کسی بھی شخص نے ریکارڈ نہ کئے اور یوں مانچسٹر پولیس کے بہیمانہ تشدد کی ویڈیو آناً فاناً پوری دنیا میں پھیلا دی گئی جس پر برطانوی وزیراعظم نے بھی واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے مکمل انکوائری کا حکم دے دیا۔ ابتدائی انکوائری میں ایک پولیس آفیسر کو معطل کرکے مکمل انکوائری کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
واقعہ چونکہ ڈؤل نیشنل پاکستانی نوجوانوں کا ہے اس لئے پاکستان میں اس واقعہ کی ویڈیو پہنچتے ہی میرے بعض دوستوں کی بھی رگ حمیت بری طرح پھڑکی۔ انہوں نے اس واقعہ کی مکمل انکوائری سے قبل ہی برطانیہ اور برطانیہ عظمیٰ میں ’’فرق‘‘ برطانوی فلاحی اور جمہوری مملکت میں تعصبانہ سرگرمیاں اور برطانوی پولیس میں مبینہ طور پر چھپے نسلی تعصب کے بارے میں مجھ سے بہت سے سوالات پوچھنا شروع کر دیئے۔ میں نے انکی منفی سوچ اور انکوائری سے قبل انکے ان خیالات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے انہیں ’’صبر‘‘ کرنے کا مشورہ دیا تو وہ الٹا میرے ’’دوالے‘‘ ہو گئے۔ میں نے اقرار کیا کہ مذکورہ نوجوانوں کا پولیس سے یہ رویہ کتنا ہی جارحانہ کیوں نہ ہو‘ برطانوی پولیس سے ملزموں پر سرعام یوں تشدد کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ میرے بعض وہ دوست جنہوں نے اپنے یوٹیوب چینلز کھول رکھے ہیں اور ’’آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہو‘‘ تک کے مناظر ریکارڈ کرنے تک سے بھی احتراز نہیں کرتے۔ اب واقعہ پر پہلے روز والی ویڈیو سے ہی اپنے تجزیے پیش کر رہے ہیں جبکہ وہ بھول گئے کہ ایئرپورٹ پر سی سی ٹی وی اور پولیس کے اپنے کیمرے بھی موجود ہوتے ہیں جن سے کسی بھی بدمزگی کے واقعہ کا فوری نوٹس لے لیا جاتا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں پولیس کی جانب سے بھی ایک ویڈیو ریلیز کی جا چکی ہے جس میں پولیس تصادم اور نوجوانوں کا ردعمل دیکھا جا سکتا ہے۔ مزید ویڈیو سامنے آنے کی توقع ہے کہ سب سے اہم بات جاننا یہ ضروری ہے کہ واقعہ کی ابتداء کیسے ہوئی؟ میرے ذرائع کے مطابق مانچسٹر ایئرپورٹ کے ٹرمینل 2 پر مذکورہ واقعہ سے قبل دو گروپوں میں جھگڑا بھی ہوا۔ واقعہ میں چونکہ برطانوی پاکستانی ملوث ہیں‘ اس لئے بعض شر پسند عناصر اس واقعہ کا رخ اسلامو فوبیا اور پولیس کے تعصبانہ رویوں کی جانب موڑ رہے ہیں۔ اصل حقیقت کیا ہے‘ ’’واچ ڈاگ‘‘ 4 الزامات کی انکوائری کر رہا ہے جس میں پولیس کے پروفیشنل سٹینڈرڈ سمیت نوجوانوں پر پولیس افسران کا وحشیانہ تشدد شامل ہے۔ متاثرہ نوجوان چونکہ دوہری شہریت کے حامل ہیں اس لئے ہمارے پاکستانی ہائی کمیشن نے واقعہ کی تمام ابتدائی رپورٹس مبینہ طور پر حکومت کو بھجوا دی ہیں جبکہ اس واقعہ کے سلسلہ میں ہونیوالے مظاہرے بھی حتمی فیصلہ آنے تک روک دیئے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ اس واقعہ میں ملوث تمام افراد کو نئی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے اب تک ٹریس کیا جا چکا ہوگا اور اصل مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائیگا۔ یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ ہوم آفس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ایسے چالیس فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے مگر مذکورہ واقعہ سے برطانوی پولیس کی شہرت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
یہاں تک لکھ چکا تھا کہ برادر عزیز لندن کے معروف شاعر اور سماجی شخصیت احسان شاہد چودھری (بی ای ایم) کا پیغام ملا کہ پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ سیکرٹری اطلاعات برائے وزیراعلیٰ پنجاب اور صرف ایک مصرعے ’’اس طرح تو ہوتا ہے‘ اس طرح کے کاموں میں‘‘ سے عالمی شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے ممتاز شاعر شعیب بن عزیز کے اعزاز میں ’’سلام دعا‘‘ کی انہوں نے ایک محفل رکھی ہے جس میں میری حاضری لازم ہے۔ اس خوبصورت ادبی محفل میں فیضان عارف‘ خالد محمود‘ ارشد لطیف‘ فاروق‘ ضرار خلش اور ودود مشتاق نے شرکت کی اور شعیب بن عزیز سے انکی علم و ادب اور شاعری کے حوالے سے سرانجام دی خدمات پر انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ بعدازاں میزبان برادرم احسان شاہد (بی ای ایم) نے اس علمی دعائیہ محفل کو محفل طعام میں تبدیل کر دیا۔