پاکستان میں برپاسیاسی کشیدگی کیو جہ سے ملک میں بنگلہ دیش کو خطے کی معاشی، سیاسی اور ترقیاتی کاموں کی بدولت سب سے کامیاب ریاست ثابت کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا طوفان برپا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ پاک فوج کی ضد یا مخالفت میں شیخ مجیب الرحمان کو ہیرو کا درجہ دے کر مشرقی پاکستان میں قوم پرست بنگالیوں اور بھارت کی ملی بھگت سے وہاں پھیلائی گئی شورش پر قابوپانے کیلئے فورسز کے استعمال کو ہمارے بہت سے پاکستان بھائی بند پاک فوج پراسی طرح کی الزام تراشی میں مصروف تھے جیسے بھارت نے پاک فوج کو بدنام کرنے اور مشرقی پاکستان پر اپنے جارحانہ حملے کا جواز فراہم کرنے کیلئے انتہائی منظم اور مربوط انداز سے عالمی میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا رکھا تھا۔ کیا ہمارے ملک میں 1971ء کے حوالے سے پاک فوج پر بنگالیوں کے قتل عام کے سلسلے میں تواتر کے ساتھ الزام لگانے والوں کے پاس ایک بھی حقیقت پر مبنی ایسی مثال ہے جس کے ذریعے وہ پاک فوج پر چند روز کے اندر مشرقی پاکستان میں165 افراد کو براہِ راست گولیاں مار کر قتل کرنے کا الزام ثابت کر سکیں؟ خاص طور پر کوئی ایک واقعہ جس میں پاک فوج کے سامنے مشرقی پاکستان کا کوئی شہری سینہ تان کر کھڑا ہوگیا ہوکہ ’’مارو مجھے میں رضاکارہوں‘‘۔ جس طرح حسینہ واجد کی پولیس کا سپاہی نشست باندھ کر احتجاج میں شریک نوجوان ابو سعید پر گولی چلاتا ہے ،گولی کا زخم کھانے کے باوجود وہ نوجوان دنوں بازو پھیلا کر پولیس کو چیلنج کرتا ہے کہ مزید گولیاں چلاؤ۔ پولیس اس پر مزید گولیاں چلاتی ہے۔ یہ نوجوان ابوسعید بچپن سے جھونپڑی کی غربت میں پلنے کے باوجود تعلیم میں ہر سطح پر پہلی پوزیشن لے کر سکالر شپ کے ذریعے اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھتا ہے اور یوں انگلش لٹریچر کے شعبہ میں یونیورسٹی سے کامیاب ہوکر نکلتا ہے۔
دوگولیاں کھانے کے باوجود ابو سعید کا بازو پھیلائے سینہ تان کر پولیس کے سامنے ڈٹ کر اپنے ’’رضا کار‘‘ ہونے کا دعویٰ دہرانا پولیس کو مزید گولیاں چلانے پر مجبور کردیتا ہے۔ تیسری گولی کھاکر ابوسعید زمین پر گھٹنے ٹیکتا ہے تو پولیس اس پر مزید گولیاں برساتی ہے۔ یوں خود کو ’’رضا کار‘‘ کہنے والا ابو سعید دنیا سے ضرور رخصت ہوجاتا ہے لیکن اس کا قتل پاکستان میں اقتدار سے باہر رہ جانے والی سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور وابستگان کی طرف سے پاک فوج پر مشرقی پاکستان کو لے کرا لزام تراشیاں کرنے والوں کیلئے ایک سوال ضرور چھوڑ جاتا ہے کہ کیا حسینہ واجد کا مکتی باہنی کو نوازنے کیلئے سرکاری ملازمتوں میں 50 فیصد کوٹہ جمہوریت اور جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کیا گیا تھا؟کیا مکتی باہنی والوں کی تیسری نسل حسینہ واجد کیلئے اس قدر اہم تھی کہ ان کی خوشی اور خوشحالی کی خاطر اس نے چند روز کے اندر احتجاج کرنے والے اپنے شہریوں کو غدار اور پاکستانی قراردے کر165 سے زیادہ شہری قتل کرا دئیے؟ صرف اس لیے کہ مکتی باہنی کی باقیات یا ان کی تیسری نسل 53 برس گزر جانے کے باوجود آج بھی بنگلہ دیش میں بھارتی مفادات کی نگرانی پر مامور ہے۔ کیا حسینہ واجد اس خوف میں مبتلا نہیں تھی کہ اگر بنگلہ دیش کی پولیس، ضلعی انتظامیہ اور دیگر سرکاری ملازمتوں پر مکتی باہنی والوں کی بجائے میرٹ پر بنگالی نوجوان آگئے تو وہ بنگلہ دیش کے حکمرانوں سے بھارت کیلئے خدمات پر سوالات کریں گے؟ حسینہ واجد سے پوچھا جائے گا کہ وہ بنگلہ دیش کے دریاؤں اور ندی نالوں پر بنگلہ دیشی عوام کے حق سے کیوں دستبردار ہوئی ؟ حسینہ واجد نے جس طرح مغربی بنگال میں کلکتہ سے براستہ بنگلہ دیش (جیسور اور چٹاگانگ کے راستے) بھارتی شمالی و جنوب مشرقی ریاستوں کو بھارت سے ملانے کیلئے بھارتی ریاست تری پورہ تک شاہراہ کی تعمیرکی اجازت دے کر جس طرح بھارت کو نوازا ہے محب الوطن بنگلہ دیشی اس پر اضطراب کا شکار ہیں۔ بھارت 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کیلئے مشرقی پاکستان پر حملے کی بڑی وجہ اس سٹرک کی تعمیر میں رکاوٹ کو قراردیتا رہاہے تو کیا بنگلہ دیش میں بھارت مخالف نوجوان یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ 1971ء کے بعد حسینہ واجد نے مکتی باہنی کی باقیات کے ساتھ مل کر ایک بار پھر بنگلہ دیش کو بھارت کے ہاتھ بیچ دیاہے ؟
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف وہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے احتجاج اور بندوق کی گولی سے 165سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سڑکوں پر بہیمانہ انداز سے قتل کرنے جیسے اقدام سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حسینہ واجد کس طرح اپنے مخالفین کو پاکستان کا حمایتی قرار دے کر انہیں جیلوں میں ڈالنے ، ماورائے عدالت قتل کراکے یا عدالتوں سے سزائے موت دلواکر بنگلہ دیش پر اپنی حاکمیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ بنگلہ دیش میں 10جولائی سے سرکاری نوکریوں کی بندر بانٹ کے خلاف ڈھاکہ یونیورسٹی کے باہر احتجاج شروع ہوا تو حسینہ واجد نے حسب معمول پولیس کی قوت سے اسے دبانے کی کوشش کی۔ جس کے ردعمل میں احتجاج دیگر شہریوں کی یونیورسٹیوں تک پھیلتا چلاگیا۔ حسینہ واجدنے طالب علموں کی تحریک کیلئے بغاوت کا لفظ استعمال کیااور اس کے حامی طالب علموں کو ’’رضاکار‘‘ قراردے دیا۔ بنگلہ دیش میں ’’رضا کار‘‘ سے مراد مشرقی پاکستان میں مقامی افراد پر مشتمل وہ ملیشیا تنظیمیں تصور کی جاتی ہیں جو 1970ء 1971ء میں اس طرح کی رضاکار تنطمیں مکتی باہنی کے خلاف پاک فوج کا ساتھ دیتی رہیں۔ اس طرح کی رضاکار تنظیمیں مشرقی پاکستان کے ہر علاقے میں متحرک رہیں۔ حسینہ واجد نے جب سرکاری ملازمتوں میں مکتی باہنی کی اولاد اور باقیات کیلئے 50 فیصد کو ٹہ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ’’رضا کار‘‘ کا لقب دیا تو اس کا مطلب وہاں کے نوجوان بخوبی جانتے تھے کہ حسینہ واجد نے انہیں کھلے عام پاکستان کا حمایتی قرار دیا ہے۔ جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔غدار قرار دئیے جانے پر نوجوانوں کے غم وغصہ میں اضافہ ہوا جو ان میں برسوں سے پنپ رہا تھا۔ حسینہ واجد کو جواب دینے کیلئے احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے بنگالی زبان میں لکھے ہوئے بینرز اُٹھا لیے۔ جن پرلکھے الفاظ میں احتجاج کرنے والے نوجوان ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے۔ ’’تم کون‘‘؟ ’’میں کون‘‘؟’’رضاکار، رضاکار‘‘، حسینہ واجد نے ان جملوں کو اپنے منہ پر چپیڑ سمجھا ، ملک بھر میں پولیس اور دیگر سیکورٹی کے اداروں نے یونیورسٹیوں کا گھیراؤ کر لیا اور مظاہرین سے نپٹنے کیلئے عوامی لیگ کے سٹوڈنٹس ونگ ’’چھاتر ونگ‘‘ کو ڈنڈو ں اور لوہے کی سلاخوں سے مسلح کر کے احتجاجی مظاہرین پر حملوں کیلئے بھیجا گیا۔ یوں تحریک نے بلوے کی صورت اختیار کرلی۔ باہمی جھگڑے میں چھاتر لیگ کے ایک طالب علم کی ہلاکت پر حسینہ واجد کے حمایتی طالب علم ڈنڈے سوٹے چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ مظاہرین نے سرکاری املاک اور پولیس والوں پر حملے شروع کر دئیے۔ پولیس کی فائرنگ سے سینکڑوں نوجوان زخمی ہوئے اور 165 سے زیادہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حالات پر قابوپانے کیلئے بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے سرکاری نوکریوں میں مکتی باہنی کی باقیات کیلئے کوٹہ 50فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کردیا لیکن اس فیصلے اور کرفیو کے باوجود احتجاجی فسادات میں کمی نہیں لائی جاسکی اور اب اطلاعات ہیں کہ حالات پر قابوپانے کیلئے بھارت سے فوجی طلب کیے گئے ہیں۔