حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ شہید ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ اسماعیل ہنیہ سے پہلے ان کے تین بیٹوں سمیت خاندان کے بہت سے افراد غاصب صہیونی غنڈوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان سب افراد نے جس مقصد کے لیے جان دی اس نے انھیں حیاتِ جسمانی کے اختتام پر یوں امر کردیا کہ حق و باطل کی جنگ میں جب بھی فلسطین کے مجاہدوں کاذکر ہوگا ان افراد کے نام اس فہرست میں نمایاں دکھائی دیں گے۔ اسماعیل ہنیہ نے اپنے بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد کی شہادت پر جس طرح صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے وہ شخص فلسطین کے مسئلے کو ایک معرکۂ حق و باطل کے طور پر دیکھتا تھا اور وہ صرف گفتار کا غازی نہیں تھا بلکہ اس کا کردار بھی اس کے سچا مسلمان اور حق پرست ہونے کی گواہی دیتا تھا۔ اسی لیے رب العزت نے اس شخص کو شہادت جیسے مرتبے پر فائز کر کے ایسی حیاتِ دائمی بخش دی جسے کوئی بھی مسلمان اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے غزہ میں ناجائز صہیونی ریاست کی طرف سے جاری دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اور عالمی سطح پر پیدا ہونے والے ردعمل کو ایک نیا رخ دیا ہے، اور ایسے معاملات کے ماہرین کی طرف سے یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں بلکہ اب غاصب صہیونیوں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ ویسے بھی ظلم و ستم کا سلسلہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، ایک نہ ایک دن ظالم نے خدا کی پکڑ میں آنا ہی ہوتا ہے اور پھر اس کا انجام دنیا کے عبرت کا سبق بن کر رہ جاتا ہے۔ اسرائیل نامی ناجائز ریاست کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔ ممکن ہے ہم ایسا ہوتا ہوا نہ دیکھیں لیکن ایسا ہوگا ضرور کیونکہ یہ ہمارا نہیں بلکہ اس کا فیصلہ ہے جو ہر طرح کی قوت کا مالک ہے اور جو ہر بات کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھتا ہے اور صحیح وقت آنے پر اس حساب کو اس طریقے سے بے باق کرتا ہے کہ ساری کسریں پوری ہو جاتی ہیں۔
غاصب صہیونیوں نے بربریت کا جو سلسلہ 7 اکتوبر 2023ء کو شروع کیا بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید یہ کوئی نیا سلسلہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1948ء بربریت کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ ہاں، کچھ دن ایسے آ جاتے ہیں جب اس ظلم و ستم میں کمی واقع ہو جاتی ہے لیکن یہ سلسلہ رکا کبھی بھی نہیں اور اس کے مقابل حق پرستوں کی قربانیوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ فلسطین کے غیور اور نڈر لوگ گزشتہ پون صدی سے زائد عرصے سے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں اور اس تمام عرصے میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب فلسطینیوں نے عالمی برادری یا نام نہاد مسلم امت سے یہ کہا ہو کہ اگر ناجائز صہیونی ریاست ان پر ظلم و ستم روک دے تو وہ اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ فلسطینیوں کے لیے یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے سیاسی حل کے لیے کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان سمیت بہت سے مسلم ملک مغربی ممالک کے تتبع میں یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسرائیل اور فلسطین کو دو الگ الگ ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے تو یہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہو جائے گا۔ اگر آپ کسی فلسطینی سے اس بارے میں بات کریں تو وہ دو ٹوک الفاظ میں آپ سے کہے گا کہ ہم دو ریاستی فارمولے کو نہیں مانتے، اگر آپ ہمارا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو صرف ایک ریاست یعنی فلسطین کے قیام کی بات کریں ورنہ خاموشی اختیار کریں کیونکہ جب آپ دو ریاستی فارمولے کی بات کرتے ہیں تو آپ ہمارا ساتھ نہیں دیتے بلکہ ایک طرح سے آپ غاصب کی حمایت کررہے ہوتے ہیں جو ہمیں کسی بھی طور قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں موجود حماس کے نمائندے ڈاکٹر خالد قدومی یہ بات کئی بار دہرا چکے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطینی اپنے اس موقف پر پوری طرح قائم ہیں اور وہ اس سے کسی بھی طور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
اس سارے سلسلے میں مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کا کردار بہت ہی افسوس ناک ہے بلکہ ان میں سے چند ایک تو ایسے بھی ہیں جن کا کردار نہایت گھناؤنا، شرم ناک اور قابلِ مذمت ہے۔ یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے امریکا کے کہنے پر اپنے ہاں وہ دفاعی نظام نصب کرایا ہے جس کی مدد سے وہ اسرائیل پر ہونے والے حملوں کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان ممالک کے حکمرانوں کے فلسطین کے بارے میں کھوکھلے بیانات سنیں تو ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس قابل نہیں ہیں کہ باطل کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت بھی کرسکیں۔ اندریں حالات، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فلسطینیوں نے اپنے حصے کی جنگ خود ہی لڑنی ہے اور اس سلسلے میں انھیں اگر کوئی زمینی مدد ملنی ہے تو وہ ان افراد کی طرف سے ملنی ہے جن کے دلوں میں خدا نے حق پرستی کا جذبہ ڈال رکھا ہے اور وہ اپنے قول و فعل سے اس جذبے کو فروغ دے رہے ہیں۔
دوسری جانب، مغرب کے کئی ممالک کھل کر ناجائز صہیونی ریاست کی نہ صرف حمایت کررہے ہیں بلکہ اسے اسلحہ اور گولا بارود بھی مہیا کررہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، بھارت نے بھی اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا ہے۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ ساری باطل قوتیں ’امتِ واحدہ‘ کے طور پر برسرِ پیکار ہیں۔ ان سنگین ترین حالات میں فلسطین کے لوگ حق پرستی پر قائم رہ کر دنیا کے سامنے یہ ثابت کررہے ہیں کہ حق کی راہ پر چلنا کس قدر دشوار ہوسکتا ہے اور اس کے لیے کتنی کتنی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسماعیل ہنیہ اور ان کے خاندان کے افراد کی شہادتیں قربانیوں کے اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور ہر مسلمان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ شہیدوں کا خون کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتا:
آخر کو ہو کے لالہ اُگا نو بہار میں
خونِ شہیدِ عشق نہ زیرِ زمیں رہا