پاکستان میں گزشتہ 2سال میں بجلی بلوں میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ عام آدمی کی آمدن میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوا بلکہ بجلی کے ٹیرف میں ناقابل برداشت اضافہ ہونے سے بند ہونے والی فیکٹریوں‘ کارخانوں اور زرعی ٹیوب ویلوں کی بندش سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں جس سے ملک بھر میں آئے روز یہ خبریں آتی ہیں کہ فلاں شہر میں بزرگ خاتون نے زائد بجلی بل کی وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی اور فلاں شہر میں بجلی کا زیادہ بل آنے پر بھائی نے بھائی کو قتل کردیا۔ فلاں شہر میں بجلی بل سے پریشان شخص نے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ معاشرہ معاشی بدحالی کے باعث پریشانی کا شکار ہے اور بجلی ٹیرف ہے کہ ایک جگہ رکنے کا نام تک نہیں لے رہااور ہر ہفتے دس دن میں بجلی ٹیرف میں مزید اضافے کی خبر آجاتی ہے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگی ترین بجلی سے پریشان ہیں۔ مہنگی ترین بجلی بھی بلاتعطل دستیاب نہیں ہے۔ کئی علاقوں میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ 12-14گھنٹے کی لوڈشیڈنگ اور گرمی سے لوگ الگ بے حال ہیں۔ موجودہ صورتحال عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرتی چلی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے کمیٹی بنائی گئی ہے جو آئی پی پیز کے معاہدوں میں نظرثانی کی کوشش کرے گی اور بجلی ٹیرف کے سلسلے میں حکومت کو تجویز پیش کرے گی جس پر وزیراعظم تمام ممکنہ حد تک عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کریں گے۔ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدے ملک دشمنی ہے اور جس جس نے بھی آئی پی پیز سے موجودہ معاہدے کئے ہیں وہ ملک اور عوام کے بدترین دشمن ہیں اور ملک میں ظالمانہ بجلی ٹیرف سے ہونے والی اموات کا ذمہ بھی انہی کے سر جاتا ہے۔ آئی پی پیز کی فی یونٹ لاگت کے بارے میں بھی مبینہ طور پر مختلف اعداد و شمار سامنے آتے رہتے ہیں جس میں فی یونٹ لاگت 8روپے سے لیکر 15روپے تک بتائی جاتی ہے لیکن عوام کو 60روپے یونٹ فروخت کئے جانے والے یونٹ پر کون نوٹس لے گا؟ حکومتی اتحادی جماعتیں تو الیکشن مہم میں 300یونٹ فری بجلی کی بات کرکے اقتدار میں آئی ہیں۔ اگر آپ ملک کی معاشی صورتحال کے ہاتھوں مجبور ہوکر 300یونٹ فری بجلی نہیں دے سکتے تو کم از کم بجلی ٹیرف تو فوری طور پر کم کریں۔ عوام آپ سے فری بجلی نہیں بلکہ مناسب قیمت پر بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
گھریلو صارفین بجلی بلوں سے پریشان ہیں اور مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہائش پذیر گھرانوں میں آپس میں بھائیوں میں مہنگی بجلی کے بلوں کی ادائیگی پر ناچاقی کے واقعات معاشرے میں پھیلی بے چینی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اور اگر یہی حالات برقرار رہے تو عوام سخت احتجاج کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ کئی دکانیں مہنگی بجلی کے باعث بند ہوتی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ کارخانوں کی بندش سے لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ بجلی پر چلنے والے زرعی ٹیوب ویل مالکان ناقابل برداشت بجلی بلوں سے اس قدر پریشان ہیں کہ انہوں نے زمینوں پر کاشتکاری ترک کردی ہے کیونکہ وہ لاکھوں روپے بجلی کے بل ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مہنگی بجلی سے پورے ملک کا ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا شخص پریشان ہے۔
آئی پی پیز کو رضاکارانہ طور پر پاکستان کے عوام پر رحم کرکے ٹیرف پر نظرثانی کردینی چاہئے اور جائز طریقہ کار اور جائز منافع سے پاکستان میں کاروبار کیا جانا چاہئے۔ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ بند تھرمل پاورز کو ماہانہ اربوں روپے کی ادائیگیاں ہوتی رہی ہیں۔ آئی پی پیز کے سربراہوں اور کرتا دھرتا لوگوں نے وطن عزیز پاکستان سے اربوں کھربوں روپے کمائے ہیں اور اب بھی کم منافع پر ان کی کمائی جاری رہے گی اگر وہ عام آدمی کی حالت پر ترس کھائیں اور رضاکارانہ طور پر بجلی ٹیرف میں کمی کا اعلان کریں۔ قومی خزانے پر توانائی کے شعبے کا سب سے زیادہ دباؤ ہے۔ حکومتی خزانے پر بننے والے توانائی سیکٹر کے ناجائز معاہدوں کے بوجھ کو براہ راست عوام پر منتقل کرنے کا سلسلہ چلتے چلتے اب یہاں تک آپہنچا ہے کہ عوام کی برداشت کی حد ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ حکومتی خزانے پر ناجائز اور ظالمانہ آئی پی پیز کے معاہدوں کے بوجھ کو عوام نے نہیں بلکہ حکمرانوں نے خود ختم کرنا ہے اور اس سلسلے میں تیز پیشرفت کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ سستے ترین ہائیڈل پاور جنریشن کے پاکستان میں موجود قدرتی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے مقامی نوجوان انجنیئرز کے ذ ریعے جامع منصوبہ تیار کرکے ہائیڈل پاور جنریشن کی کو اولین ترجیح بنائے۔ ہماری اب تک کی سب سے بڑی بدقسمتی بھی یہی ہے کہ ہم نے ملک میں قدرتی بے شمار آبی وسائل کو ضائع کیا ہے اور ان کو نہ تو ہائیڈل پاور جنریشن میں استعمال کیا ہے اور نہ ہی زراعت میں موثر طریقے سے استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بلکہ عام آدمی کو سیلاب سے تباہ کرنے کا ذریعہ بنے ہیں اور پھر ہر چند سال بعد سیلاب متاثرین کے لئے امداد لینے کے علاوہ ہم نے قدرتی آبی وسائل سے کوئی استفادہ نہیں کیا۔ اس کے ایوب خان کے بعد اب تک اقتدار میں آنے والے سب حکمران برابر ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس قوم پر ظلم کیا ہے اور پھر آئی پی پیز سے ظالمانہ معاہدے کرنے والوں نے تو اس ملک پر ظلم کی انتہاء کرکے رکھ دی ہے جس سے عام آدمی کے منہ سے نوالہ تو پہلے ہی چھن چکا تھا اب لوگ بجلی بل بھرنے کے لئے اپنے اثاثے بیچنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
تاجروں کی جانب سے ظالمانہ بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کی جانب سے بجلی ٹیرف میں کمی کے مطالبے پر اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اوردھرنے جاری ہیں۔ حکومتی اتحادی جماعتوں کو حالات کی نزاکت کو سمجھ کر بجلی ٹیرف کے معاملے پر تیزرفتاری سے فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کو کم کیا جاسکے۔ 200یونٹ‘ 300یونٹ اور اسی طرح کے مختلف ٹیرف سلیب کو ختم کیا جائے اور فی یونٹ بجلی کی فکس قیمت کا اعلان کرکے جو ماہانہ جتنے یونٹ استعمال کرے‘ اسی حساب سے بجلی کا بل آنا چاہئے۔ بجلی ٹیرف میں سیلب کا گورکھ دھندہ عوام کو لوٹنے کا ایسا طریقہ ہے کہ جس نے عوام کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ اب تو بڑے بڑے کاروباری افراد اور فیکٹری مالکان بھی چکرا گئے ہیں۔ بجلی پر چلنے والے ٹیوب مالکان کو تو راستہ نظر نہیں آرہا کہ کدھر جائیں؟
ملک کو موجودہ حالات تک لے جانے کی یقیناً کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو قطعی تیار نہیں ہوگا لیکن اب تک اقتدار کے مزے لینے والے سب حکمران اس کے برابر کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے ملک کے عوام کو دلدل میں دھکیل دیا ہے اور خود شاہانہ زندگی کے مزے لے رہے ہیں۔ عوام اپنے دکھوں کے مداوے کے لئے کس کی طرف دیکھیں؟ تمام ارباب اختیار اس قوم کی حالت پر رحم کریں اور ناقابل برداشت بجلی ٹیرف میں کمی اور سلیب کے گورکھ دھندے سے نجات دلائی جائے۔ اس سلسلے میں تمام ممکنہ طریقوں پر سوچ بچار کرکے فیصلے کئے جائیں۔
اب موجودہ صورتحال میں عوام کو مہنگائی سے نمٹنے کے لئے لوٹ مار کی جانب مبذول کیا جارہا ہے اور معاشرے میں بدامنی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آگے جاکر حالات بے قابو ہوتے نظر آتے ہیں۔ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدوں کا پاکستان پابند ہے اسی لئے اگر معاہدے کے مطابق بھی اگر کوئی غبن و ناجائز طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے تو اس کا احتساب ضرور کیا جاسکتا ہے اور اس جرم میں آئی پی پی کے خلاف کارروائی و جرمانہ ہوسکتا ہے۔حقائق کے تحت ہی فیصلے ہوں تاکہ ریکوڈک کی طرح عالمی عدالت میں پاکستان کو جس طرح جرمانہ ہوا ‘ ایسا قطعی نہیں ہونا چاہئے۔ بجلی بل سے تمام وفاقی و صوبائی ٹیکس ختم کئے جائیں جس سے یقینی طور پر عوام کو واضح ریلیف ملے گا۔ حکمران طبقہ پہلی ترجیح میں سستے ترین ہائیڈل پاور جنریشن کو پہلی ترجیح رکھ کر بجلی کی پیداوار کے لئے آبی وسائل سے استفادے کا مشن رکھے اور مستقبل قریب میں سستی بجلی کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔