جمعرات ، 25 محرم الحرام   ،    1446ھ یکم  اگست  2024ء

Aug 01, 2024

جماعت اسلامی کا مطالبات پورے
 ہونے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان
اب یہ تو جماعت اسلامی کے لیے واقعی ایک کڑا امتحان ہے۔ جماعت بڑے شدو مد سے عوام کے مطالبات پیش کر کے ایک مرتبہ پھر عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ قابل ذکر ہے۔باقی سب اپوزیشن جماعتیں منتشر الخیال ہیں۔ کوئی اپنے بانی کی رہائی چاہتا ہے ، کوئی نئے الیکشن چاہتا ہے۔ اصل مسئلے کی طرف کوئی نہیں آتا کہ پاکستان کے عوام کو جو حقیقت میں مسائل کی چکی میں بْری طرح پس رہے ہیں، اس عذاب سے نکالنے کی راہ کسی کو سجھائی نہیں دے رہی۔ اب اگر جماعت بھی مطالبات پورے ہونے سے پہلے ہی اُٹھ جاتی ہے، دھرنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کا منفی اثر جماعت کی سیاست پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ہاں اگر دیگر جماعتیں بھی اس کارِخیر میں شامل ہو جائیں تو شاید بات بنے مگر اس کی امید کم ہے۔ کوئی جماعت نہیں چاہے گی کہ کامیابی کا سہرا کسی دوسری جماعت کے سر پر سجایا جائے۔ اس سخت موسم میں جب گرمی اور حبس سے جان نکل رہی ہے۔ بارش نے الگ طوفان اُٹھایا ہے۔ راولپنڈی میں سیلابی صورتحال سے شہر کی حالت ابتر ہے۔ اس صورتحال میں اگر بارش اور سیلاب کا زور نہیں تھمتا تو شاید دھرنا ملتوی ہونے کی حکومتی خواہش پوری ہو کیونکہ  اس سے حکومت کے پائوں مضبوط ہوں گے جو عوام کے مسائل سے بے نیاز ہو کر صرف آئی ایم ایف کو راضی کرنے پر تلی ہے۔ یوں لگتا ہے حکومت کا عوام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ اب یا تو جماعت کو اعلان کے مطابق ڈی چوک کی راہ لینا ہو گی یا بجلی بل ادا نہ کرنے کی مہم چلانا ہو گی۔ 
٭٭٭٭٭
قاسم خان اپنے باپ کی طرح 
فاسٹ بائولر ہے۔ جمائمہ گولڈ سمتھ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمائمہ گولڈ سمتھ یعنی خان کی سابقہ اہلیہ نے اپنے بچوں کو اپنے پاس لندن میں رکھا اور اچھی تربیت کی ہے۔ وہ ایک ماں کے طور پر بھی کامیاب نظر آتی ہیں۔ اس کے برعکس ان بچوں کے پاپا نے کہا تھا کہ پاکستان کا ماحول اور حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں اپنے بچوں کو یہاں لائوں۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ پھر کپتان نے ساڑھے چار سال حکومت بھی سنبھالی مگر بچوں کو نہیں بلایا۔ شاید ان کے دور میں بھی حالات خراب ہی تھے۔ ہاں ہر سال کچھ ہفتے سیلمان اور قاسم خاموشی سے پاکستان آتے اور بنی گالا میں کچھ عرصہ باپ کے ساتھ گزارتے۔ اس دوران جمائمہ نے بچوں کو میڈیا سے دور ہی رکھا۔ اب گزشتہ دنوں جمائمہ نے اپنے بیٹے قاسم کی کرکٹ یونیفارم پہنے اور بائولنگ کے ایکشن والی ویڈیو اور تصاویر جاری کرتے ہوئے کہا کہ قاسم اپنے باپ کی طرح گیند کراتا ہے اور ایکشن لیتا ہے۔ اسے کرکٹ میں دلچسپی ہے اور یہ مستقبل کا فاسٹ بائولر ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک ماں کو ہی اپنے بیٹے کی کامیابی پر خوشی ہوتی ہے۔ قاسم کی تصاویر اور ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ وہ واقعی اپنے باپ کی کاپی کرتا ہے اور بائولنگ کراتا ہے۔ اب معلوم نہیں وہ پاکستان کی طرف سے کھیلنا پسند کرے گا یا انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنے گا۔ ان کے والد تو انہیں کم از کم پاکستان آ کر یہاں کی کرکٹ ٹیم کا حصہ اور یہاں کھیلتے رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ شاید عوام کے بچوں کے لیے یہ ملک درست ہے۔ وہ جلوس نکالیں مظاہرے کریں دھرنے دیں  مار کھائیں۔ مگر خواص کے بچوں کے لیے یہ ملک خطرناک ہے۔ اس لیے وہ پڑھنے اور رہنے کے لیے اپنے بچوں کو بیرون ملک رکھتے ہیں۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ  کرکٹ ٹیم کو قاسم کی شکل میں سابق کپتان کا نعم البدل مل جائے اور ٹیم کی کارکردگی بہتر ہو جائے۔ مگر اس کی اجازت انہیں کون دے گا نہ ان کی ماں اور نہ ان کا باپ۔ 
٭٭٭٭٭
علی امین گنڈا پور بہادر بنیں۔ اسلحہ ،شراب برآمد گی کیس میں  آکر عدالت میں بیان دیں۔عدالت کے ریمارکس
اب یہ پرانا کیس کہاں سے گلے پڑ رہا ہے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے ۔ انہوں نے اپنے طور پر کافی کوشش کی کہ یہ بلا پیش نہ پڑے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی اور بکرا بھی وہ جو ہر ایک سے سینگ لڑاتا ہو۔ اِدھر اْدھر ٹکریں مارتا ہو۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ بگڑا بکرا اب کافی تنگ کر  رہا تھا۔ ایسے میں وہ بار بار طلب کرنے پر بھی  شراب ، اسلحہ کیس میں عدالت کا رخ نہیں کر رہے تھے۔ اب تو عدالت بھی زچ ہو گئی ہے جبھی تو ایسے ریمارکس دیئے ہیں کہ  اگر وزیر اعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور کے خلاف اس کیس میں کچھ نہیں تو وہ بہادر بنیں اور اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔ انہیں 5 مرتبہ موقع دیا گیا مگر وہ بیان ریکارڈ نہیں کرا رہے۔ اب طے یہ ہوا ہے کہ وہ 4 ستمبر کو بیان دیں گے۔ یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں مگر وہ کہتے ہیں ناں۔
کتنے عالم گزر گئے ہوں گے 
پھول کے شاخ سے اترنے تک۔
اب کہیں یہ 4 ستمبر والی تاریخ بھی قصہ پارینہ نہ بن جائے۔ اس وقت تک نجانے کتنا پانی پْل کے نیچے سے گزر چکا ہو گا۔ ویسے بھی پی ٹی آئی والے اور ان کے حلیف اب کہہ رہے ہیں اگست میں موجودہ حکومت کا خاتمہ ہو گا اور بانی باہر ہو گا۔ یہی خیال لال حویلی کے تھڑے پر بیھٹے نجومی کا بھی ہے۔ جو اسی خوش فہمی سے کام چلا رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی والے احتجاجی طاقت کا 5 اگست کو مظاہرہ کر کے ثابت کرنے کے درپے ہیں کہ ہم آج بھی بڑی طاقت ہیں۔ بہرحال دیکھنا ہے 4 ستمبر کو علی امین گنڈا پور اسلحہ شراب برآمدگی کیس میں کیا کہتے ہیں۔ وہ فارمولہ بناتے ہیں یا نہیں کہ کس طرح شراب کو انہوں نے شہد میں بدل دیا اور یہ اسلحہ کہاں سے آیا گاڑی میں۔ تاکہ عدالت کو بھی اس چمتکاری فارمولہ کا پتہ چلے۔ 
٭٭٭٭٭
ایران سے بھی افغان باشندوں 
(مہاجرین) کی واپسی شروع
 پاکستان کے بعد ایران نے بھی افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ وجہ وہی ہے جو پاکستان میں بھی تھی۔ افغان مہاجرین کے روئیے کی وجہ سے سب پریشان ہوتے ہیں۔ ایران میں ان مہاجرین کو وہ آزادی تو حاصل نہیں تھی جو پاکستان میں انہیں حاصل ہے۔ انہیں باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔ کام کاج کے لیے ورک پرمٹ پر شہروں میں آتے تھے۔ وہاں بھی ان مہاجرین کی الٹی سیدھی حرکات کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ ایران کے عوام کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہو گیا جب گزشتہ دنوں ایک مسجد میں حملہ ہوا اور کچھ لوگ شہید ہو گئے۔ اس حملہ کے ڈانڈے افغان مہاجرین سے ملے تو ایران کے مختلف شہروں میں عوام نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ افغان شہریوں کو زد و کوب کیا۔ ان پر حملے کئے۔ جس کے بعد ایرانی پولیس نے افغان باشندوں کیخلاف کریک ڈائون کیا اور پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور انہیں زبردستی ایران سے بیدخل کیا جا رہا ہے۔ لاکھوں افغان وہاں موجود ہیں۔ ان کی واپسی سے افغان حکومت کو بھی پریشانی ہو رہی ہے۔ اگر افغان حکومت اپنے پڑوسی ممالک میں گڑبڑ پھیلانے والے عناصر کو لگام دیتی تو یہ حال آج نہ دیکھنا پڑتا۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی اور ایران میں داعش کی دہشت گردانہ کارروائیاں، افغان حکومت کی مہربانی سے ہی ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان کے اڈے بند کر دے دہشت گردوں کی راہیں مسدود کر دے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ مگر شاید افغان حکومت خود ان دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ مگر یہ افغان شہریوں کو کیا ہوا؟۔ انہیں کیوں پاکستانی پرچم تیر کی طرح سینے میں چبھتا ہے۔ وہ موقع ملتے ہی ہر جگہ اس کی توہین کے درپے ہوتے ہیں جو پاکستانی قوم کیلئے ناقابلِ برداشت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جواب میں افغان پرچم بھی ہر شہر میں جلایا جانے لگے اور اس کو لہرانے والوں کو پرچم سمیت اُلٹا لٹکانا پڑے۔ 

مزیدخبریں