اسماعیل ہانیہ ایران میں شہید ،دنیا مزید غیر محفوظ ہو گئی 

Aug 01, 2024

اداریہ

ایران میں میزائل حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو محافظ سمیت شہید کردیا گیا۔ اسماعیل ہانیہ حملے کے وقت ایران میں نومنتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے مقیم تھے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ایران کی پاسداران انقلاب اور حماس نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے تاحال اس کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔ اسرائیل متعدد بار حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سمیت ٹاپ لیڈر شپ کو دنیا کے کسی بھی خطے میں نشانہ بناکر قتل کرنے کی دھمکی دے جا چکا ہے۔ مقامی وقت کے مطابق رات 2 بجے تہران کے قلب میں سابق فوجیوں کے ہیڈ کوارٹر میں اْس مقام پر میزائل داغا گیا تھا جہاں اسماعیل ہانیہ اپنے محافظ سمیت ٹھہرے ہوئے تھے۔غزہ جنگ کے دوران اسماعیل ہانیہ کے بیٹوں پوتیوں اور بہن سمیت خاندان کے تیرہ افراد شہید ہو چکے ہیں۔ حماس کے سربراہ کی شہادت کی اطلاع کے بعد فلسطین کے مقبوضہ علاقوں غزہ اور مغربی کنارے میں شدید جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اسماعیل ہانیہ کے بھائیوں نے بھی حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے۔
اسماعیل ہانیہ1962ء میں غزہ شہر کے مغرب میں شطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے،انہوں نے اسلامی یونیورسٹی سے1987ء میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی، 2009ء میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ 1988ء میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی رکن کی حیثیت سے شامل تھے، 1997ء میں وہ حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکرٹری بن گئے، 1988ء میں پہلے انتفادہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل ہانیہ کو اسرائیل نے 6 ماہ قید میں رکھا، 1989ء میں دوبارہ گرفتاری کے بعد 1992ء میں اسماعیل ہانیہ کو لبنان ڈی پورٹ کیا گیا جس کے اگلے سال اوسلو معاہدے کے بعد اسماعیل ہانیہ کی غزہ واپسی ہوئی۔وہ 2006ء میں فلسطین اتھارٹی کے وزیراعظم بنے، اسماعیل ہانیہ کو 2017ء میں خالد مشعل کی جگہ حماس کا سربراہ بنایا گیا۔متعدد مرتبہ امن مذاکرات کا حصہ رہے۔ایران میں اسماعیل ہانیہ پر ہونے والے حملے سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے لبنان کے دارالحکومت بیروت پر حملے کیے جس کے نتیجے میں دو بچوں سمیت تین افراد جاں بحق اور 74 زخمی ہوئے۔ حملے میں حزب اللہ کمانڈر فواد شکر بھی جاں بحق ہوئے جو  حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کے فوجی مشیر بھی تھے۔ حملے کا ٹارگٹ فواد شکر ہی تھے جن کے سر کی قیمت  امریکہ نے 50 لاکھ ڈالر  مقرر کر رکھی تھی۔
سات اکتوبر 2023ء سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین جنگ جاری ہے جس میں بچوں بوڑھوں اور خواتین سمیت چالیس ہزار فلسطینی شہید ،ان سے دوگنا زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ فلسطین میں بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال، فلسطینی اپنے گھروں  میں تو کیا، پناہ گزین کیمپوں  عبادت گاہوں اور ہسپتالوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔اقوام متحدہ اور کچھ عالمی قوتوں کی طرف سے جنگ بندی کی کوشش کی گئی۔ اقوام متحدہ میں قراردادیں منظور ہو چکی ہیں کچھ کی حمایت امریکہ کی طرف سے بھی کی گئی لیکن اسرائیل جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہو رہا۔ ایک طرف امریکہ جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے دوسری طرف فلسطینیوں پر حملوں میں اسرائیل کا ساتھ بھی دے رہا ہے۔
شام میں ایران کے سفارت خانے پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا جس میں دو ایرانی جنرلز سمیت 15 مقامی افراد اور متعدد ایرانی باشندے شہید ہوئے تھے۔ ایران نے اس پر بدلہ لینے کی دھمکی دی تو امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ایران نے حملہ کیا تو امریکہ نے محض مذمت کرنے پر اکتفا کیا۔اس لیے حالات زیادہ تباہی کی طرف نہیں گئے مگر اسرائیل نے جواب میں ایران کے اندر گھس کر اس کی اہم دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔اسرائیل جنگ کا دائرہ بڑھاتا چلا جا رہا ہے اس نے شام اور لبنان اور یمن پر بھی حملے کیے ہیں۔
کچھ حلقوں کی طرف سے اسماعیل ہانیہ پر حملے کو فلسطینی گروپوں کے اندر کی مخالفت اور لڑائی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اول تو یہ گروہ اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ دوسرے ملک میں جا کر میزائل سے حملہ کریں اور پھر سارے فلسطینی گروپ پچھلے ہفتے ہی چین میں اکٹھے ہوئے اور اپنے اختلافات طے کر کے متحد ہوچکے ہیں۔اسرائیل کے لیے سارے فلسطینی گروپوں کا متحد ہونا بھی فرسٹریشن کا باعث بناہے۔گو کسی کی طرف سے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔ فلسطینی لیڈر شپ اور ایران کی طرف سے اسرائیل پر الزام لگاتے ہوئے بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ایران میں جو کچھ ہوا انتہائی زیادہ افسوس ناک ہے۔ اس سے ایران کی سیکیورٹی پر بھی سوال اُٹھتے ہیں۔اڑھائی ماہ قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوئے۔ اسے ابتداً اسرائیل کی ہی سازش قرار دیا جا رہا تھا مگر بعد میں ایران کی طرف سے اسے حادثہ قرار دیا گیا۔ ایران کی طرف سے کہیں اسرائیل پر الزام لگانے سے گریز اس لیے تو نہیں کیا گیا کہ ایران کی سیکیورٹی پر سوال اُٹھے گا؟ جو اب نئے واقعہ کے بعد شدت سے اُٹھ رہا ہے۔
اسرائیل تو پہلے ہی غزہ اور رفح میں فلسطینیوں کا حشر نشر کر رہا ہے جس کا فلسطینیوں کی جانب سے کبھی کبھار جواب بھی دے دیا جاتا ہے۔ ہانیہ کی شہادت کے بعد جھڑپوں کی شدت بڑھ گئی ہے۔فلسطینی پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں وہ جہاں کہیں بھی دنیا میں ہیں وہاں اسرائیل کے مفادات مزید خطرات میں ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی امن بھی اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگیا ہے۔
مسلم اُمہ کے لیے بھی یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اسرائیل مسلم ممالک اور قیادتوں کو ایک ایک کر کے نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ آگ کسی بھی ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے معاملات درست نہیں ہوں گے۔ آج کی صورتحال اُمہ کے اتحاد کی متقاضی ہے۔ او آئی سی فورم موجود ہے، سعودی عرب مسلم ممالک کی فوج تشکیل دے چکا ہے۔ یہی موقع ہے کہ اسرائیل کو مسلم ممالک متحد ہو کر مسکت اور فوری جواب دیں۔

مزیدخبریں