”کالا باغ ڈیم“ ----- ریفرنڈم کرا لیں!

لاہور ہائی کورٹ نے آئین کے آرٹیکل154 کے تحت، مشترکہ مفادات کی کونسل کے 1991ءاور 1998ءکی سفارشات کی روشنی میں، وفاقی حکومت کو حُکم دِیا ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم کی جلد تعمیر کے لئے اقدامات کرے، حُکم میں کہا گیا ہے کہ۔ ” کالا باغ ڈیم کی تعمیر مُلک کے مفاد میں ہے کیونکہ مُلک میں توانائی کا بحران شِدّت اختیار کرتا جا رہا ہے۔“
لاہور ہائی کورٹ کے حُکم کے خلاف وفاقی یا کسی صوبے کی حکومت اور کوئی بھی سیاسی پارٹی، سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے لیکن کالا باغ ڈیم کے جدّی پشتی مخالفوں نے اپنی سیاست کی دُکان چمکانے کے لئے ایک بار زبان و بیان کے جوہر دکھانا شروع کر دئے ہیں۔ سب سے زیادہ جوش و خروش اے این پی (عوامی نیشنل پارٹی) کے قائدین کی طرف سے دکھایا جا رہا ہے۔ حاجی عدیل کہتے ہیں کہ۔ ” لاہور ہائی کورٹ کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حُکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم لاہور ہائی کورٹ کو نہیں مانتے“۔ اے این پی کے ترجمان سنیٹر زاہد خان نے کہا کہ۔ ” لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے قومی اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔ ہم کالا باغ ڈیم نہیںبننے دیں گے“ ۔شاہی سیّد کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ (خان عبدالولی خان) کالا باغ کی تعمیر کے خلاف تھے، اس لئے ہم بھی اُس کے خلاف ہیں“۔
خان عبدالولی خان واقعی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف تھے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ۔ ” اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہوا تو ہم اُسے بم مار کر تباہ کر دیں گے“ ۔حالانکہ خان صاحب اپنے والدِ محترم باچا خان(خان عبدالغفار خان)کے فلسفہءعدم تشدّد کے علمبردار تھے۔ حیرت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے، کسی بھی ادارے یا خفیہ ایجنسی نے ،خان صاحب سے یہ نہیں پوچھا کہ۔ ”جنابِ والا! آپ کے پاس بم آیا کہاں سے؟Home Made ہے؟ درآمدی یا سمگل شدہ؟ بہر حال خان صاحب کی زندگی میں کسی بھی حکومت نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہیں کی ۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان ، دونوں پختون تھے، انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہ کراکے، خان عبدالولی خان کو خوش ہونے کا موقع دیا۔ جنرل ضیاءالحق جالندھر کے مہاجر تھے، لیکن اُن کا ڈومیسائل پشاور کا تھا، اور وہ پشتو بھی بول لیتے تھے۔ اِس لئے وہ بھی کاغذوں میں” پختون “ہی تھے۔
جنرل ضیا ءالحق نے اقتدار میں آکر پہلا کام یہ کِیاکہ، حیدر آباد ٹریبونل کے تحت، وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو، کے اسیروں، خان عبدالولی خان، سردار عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو اور نیشنل عوامی پارٹی کے دوسرے لیڈروں کو رہا کر دیا۔ بھٹو صاحب نے اِن لیڈروں پر ”غداری“ کا الزام لگا کرنیشنل عوامی پارٹی کو خلافِ قانون قرار دلوادیا تھا۔ یہ اسفندیار خان ولی اور خان عبدالولی خان کی بزرگی کے حوالے سے سیاست کرنے والوں کی فراخدلی ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی دُشمنی بھول کر۔ ”داماد بھٹو“ جناب آصف علی زرداری کے ساتھ ” مشترکہ“ مفادات کی کونسل بنا کر لیلیٰءاقتدار سے ہم کنار ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو ،کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں تھے۔ اِس لئے کہ وہ دونوں قومی سطح کی سیاست کرتے تھے اور پنجاب میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتے تھے۔ بے نظیر بھٹو تو ”چاروں صوبوں کی زنجیر“ بھی کہلاتی تھیں، لیکن وہ ہر وقت ”سندھ کارڈ“۔ بھی اپنے ہاتھ میں رکھتی تھیں۔انہوں نے سندھی قوم پرستوں کو خوش کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ یہ خبریں بھی عام ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں، کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والی قوم پرست تنظیموں میں اب تک اربوں روپے تقسیم کر چکی ہیں۔
گذشتہ دنوں ”نوائے وقت“ کے ادارتی صفحات پر ،جناب محمد سلیمان خان کا ایک مضمون تین قسطوں میں شائع ہوا ،جس میں انہوں نے لِکھا کہ ”فروری 1948ءمیں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کالا باغ (میانوالی) ہائیڈرو پراجیکٹ اور مشرقی پاکستان میں کرنافلی ہائیڈرو پراجیکٹ پر بہت جلد کام شروع کرنے کا حُکم دیا تھا“ اس لحاظ سے خان عبدالولی خان کی طرف سے تو، کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف موقف اختیار کرنے کی بات سمجھ میں آتی تھی، لیکن ایم کیو ایم کے الطاف بھائی تو، پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، پھر انہوں نے یہ بیان کیسے داغ دیا کہ ”کالا باغ ڈیم پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مُلک میں انتشار پھیلے گا“
پیپلز پارٹی کے صفِ اوّل کے قائدین نے (تادم تحریر) کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپنا موقفءبیان نہیں کیا۔ لیکن سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل میمن نے، اپنے پختون خوا اتحادیوں کے سُر میں سُر مِِلا کر بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” ہم کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے“۔ اِس ”ہم“ میں کون کون شامل ہے؟ میمن صاحب نے وضاحت نہیں کی۔ وفاقی وزیرِ برائے سیاسی امور مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ۔” کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا“۔ ایک بات تو طے ہے کہ صدر زرداری، عوامی نیشنل پارٹی کی خوشنودی کے لئے آخری حد تک جانے کو تیار ہوں گے، حالانکہ دِلوں میں فاصلے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ سندھ کی قوم پرست تنظیمیں تو ہر دور میں انتخابی سیاست کے بجائے احتجاجی سیاست کرتی رہی ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”مُلکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر بے حد ضروری ہے لیکن اس کے لئے چاروں صوبوں میں اتفاق رائے ہونا چاہیئے۔ ہمارے لئے کالا باغ ڈیم سے زیادہ قومی اتحاد زیادہ اہم ہے“۔ بِلاشُبہ یہ ایک مثبت سوچ ہے، لیکن اس معاملے میں،مسلم لیگ ن ایک فریق (مُدعّی) کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب اِس منصوبے پر میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا تو اب کیسے ہوگا اور کون کرائے گا؟ اتفاق رائے تو وفاقی علامت، صدر زرداری ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ” کاروبارِ حکومت“ چلانے کے لئے پہلے، مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت عُلماءاسلام سے اتفاق رائے کیا، پھر ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل اور چھوٹے چھوٹے گروپوں کو ساتھ مِلایا، یہاں تک کہ ”قاتِل لیگ“ کی ”جامہ تلاشی“ لے کر اُسے بھی تخت کے کونے میں جگہ دے دی گئی۔ صورت یہ ہے کہ کئی مختلف پارٹیوں نے مشترکہ مفادات کی ذاتی کونسلیں بنا رکھی ہیں۔ بقول بہادر شاہ ظفر۔۔
”صحبت منافقانہ ہے، ہر سُو نفاق ہے
کچھ اِتّفاق ہے تو کہیں اِتّفاق ہے“
پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ کبھی ہمارے دریاﺅں کا پانی روک کر ہماری زمینوں کو بنجر بنا دیتا ہے اور کبھی ہماری طرف اتنا پانی چھوڑ دیتا ہے کہ سیلاب آجاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کے مسئلے کو اب مزید طول نہ دیں۔ نہ اُسے سپریم کورٹ میں لے جائیں اور نہ ہی پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کریں مناسب یہی ہے کہ، ریفرنڈم کرا لیں ۔ کبھی توعوام کو براہِ راست کوئی فیصلہ کرنے کا موقع دیں!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...