ای او بی کے اٹھارہ لاکھ پنشنرز کی چیف جسٹس سے اپیل

Dec 01, 2013

شہر یار اصغر مرزا

کافی عرصہ سے ای او بی آئی کے تقریباً بیس لاکھ پنشنرز بذریعہ اخبارات حکومت سے اپنی 3600 روپے پنشن میں اضافہ کی اپیلیں کر رہے ہیں اور مجھے بھی ای میل اور خطوط کے ذریعہ اپنے مسائل اور اتنی چھوٹی سی رقم میں اضافہ کیلئے آگاہ کرتے رہے ہیں انہوں نے بڑے پرزور طریقہ سے یاددہانی کرائی کہ ہمارا واحد سہارا چیف جسٹس آف پاکستان چودھری افتخار محمد صاحب بھی دسمبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں‘ ان کے بعد ہماری کسی نے نہیں سننی‘ اس لئے آپ ہم سب کی طرف سے چیف جسٹس صاحب سے گڑ گڑا کر رحم کی اپیل کر دیں‘ شاید انکی مداخلت سے ہماری شرمناک پنشن میں اضافہ ہو جائے اور اگر اضافہ نہ ہوا تو اپیل نہ کرنے کا تو افسوس نہیں ہو گا کہ ہم نے اپیل ہی نہیں کی تھی۔ اگر اضافہ ہو گیا تو چیف صاحب کو ہمیشہ بیس لاکھ پنشنرز کی دعائیں ملتی رہیں گی۔
ای او بی آئی (ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن) میں لوٹ مار‘ دھاندلیوں کے ذریعہ اربوں روپے کرپشن ‘ جائیداد کی خرید و فروخت میں مبینہ غیر قانونی حربوں کے بارے میں سپریم کورٹ میں کئی کسی چل رہے ہیں‘ کوئی چیئرمین کیخلاف ہے اور کوئی ایم ڈی کی کارستانی ہے چند روز قبل یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ای او بی آئی کا دوسو ارب روپے خرد برد کر لیا گیا ہے۔ اس وقت چیف جسٹس محترم افتخار محمد چودھری نے اسی کرپشن کیس کی سماعت کے دوران یہ آبزرویشن دی تھی کہ وہ غریبوں کا پیسہ کسی کی جیب میں نہیں جانے دینگے۔ جس ادارے میں ہر سطح پر لوٹ مار مچی ہو‘ اور اتنا سرمایہ ہو‘ اس کے پنشنرز کا حال جاننا بھی ضروری ہے۔
ای او بی آئی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرکاری ملازمین کی طرح پرائیویٹ اداروں‘ کارخانوں‘ فیکٹریوں اور دکانوں پر کام کرنیوالے ملازمین جب ساٹھ سال کی عمر تک پہنچیں تو انہیں بھی پنشن لگا دی جائے۔ اس لئے مالکان ہر ملازمت کی تنخواہ کی سات فیصد حصہ اور اتنا ہی حصہ ای او بی ئی کا محکمہ اپنی طرف سے جمع کراتا تھا‘ جب مرد ملازم ساٹھ اور خاتون ملازم پچپن سال کی عمر میں پہنچ جاتی ہے تو اسے ماہوار پنشن کے طور پر تا حیات یہ پنشن شروع ہو جاتی ہے۔ 1974ءسے 1992ءتک یہ سلسلہ اسی طرچ چلتا رہا مگر 1992ءکے بعد حکومتی اداروں نے اپنا حصہ کی کنٹری بیوشن بند کر دی تھی اور ایک طرفہ طور پر صرف پرائیویٹ مالکان اپنا حصہ جمع کراتے رہے۔ اگر مالکان کی کنٹری بیوشن کے ساتھ ساتھ حکومتی حصہ بھی جمع ہوتا رہتا تو آج ہر پنشنرز کی پنشن پندرہ سے اٹھارہ ہزار روپے تک ہوتی جو اس شدید مہنگائی کے دور میں بھی صرف 3600 روپے ہے۔ مئی 2013ءمیں میاں نوازشریف صاحب کی حکومت آئی تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کرتے وقت بڑے واضح الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری پنشنرز کی کم از کم پنشن پانچ ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ اس اعلان پر سرکاری اور غیر سرکاری پنشنرز کی کم از کم پنشن پانچ ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ اس اعلان پر سرکاری پنشنرز کو تو پانچ ہزار روپے کے فیصلہ پر یکم جولائی سے عملدرآمد شروع ہو چکا ہے مگر ای او بی آئی کے پنشنرز کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کو صرف 3600 روپے پنشن پر ہی گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دور میں ہاں بجلی‘ آٹا‘ دال اور سبزی بھی لوگوں کی خرید سے باہر ہو چکی ہے صرف اتنی محدود رقم میں کیسے زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
حکومت کے اس ادارہ کی کرپشن کے مقدمات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں اور جو اروبوں روپے کے غبن اور لوٹ مار میں عرصہ دراز سے ملوث ہیں‘ عدالت ان سے یہ تو معلوم کرے کہ جن لوگوں کی کنٹری بیوشن سے رقم اور جائیدادیں بنائی گئی تھیں‘ انہیں صرف 3600 روپے پنشن کیوں دی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے یہ بیس لاکھ پنشنر چیف جسٹس صاحب سے یہ گزارش کرنے میں حق بجانب ہیں کہ غریبوں کا یہ لوٹا ہوا پیسہ جن بڑے بڑے مگر مچھوں کی جیب میں جا چکا ہے اسے نکلوا کرپنشنرز میں تقسیم کرنے کا نتظام کیا جائے۔

مزیدخبریں