ذوالفقار احمد چیمہ کی د و ٹوک باتیں

یوں تو ذوالفقار احمد چیمہ حسن ابدال کیڈٹ کالج، گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاءکالج لاہور میں حصول تعلیم کے مختلف مراحل طے کرتے رہے لیکن اصل یونیورسٹی جہاں سے انہوں نے ایمان داری اور دیانت داری کی تعلیم ہی نہیں بلکہ تربیت بھی حاصل کی وہ ان کی والدہ محترمہ تھیں۔ سی ایس ایس کرنے کے بعد ذوالفقار احمد چیمہ محکمہ پولیس سے منسلک ہوگئے اور وہ اے ایس پی کے عہدہ سے اپنی ملازمت کے سفر کا آغاز کرنے کے بعد آج اپنے محکمہ کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہو چکے ہیں۔ پولیس کا محکمہ پاکستان میں رشوت، ظلم و ناانصافی اور شہریوں سے ناروا سلوک کے حوالے سے بدنام ترین محکمہ سمجھا جاتا ہے۔ پھر محکمہ پولیس کو حکمران بھی مسلسل اپنے دباﺅ کے نیچے رکھتے ہیں کیوں کہ حکمران طبقے کو قانون کی حکمرانی، انصاف اور سرکاری محکموں کے ملازمین کی غیر جانبداری کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوتی۔ حکمران اپنی ناجائز اور قانون سے ماورا خواہشات اور مقاصد کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور حکمران طبقات اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے جو ناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں، اس کے لئے وہ پولیس کی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ نے اگر اپنے آئی جی پولیس کے عہدے تک تمام تر حکومتی دباﺅ اور معاشرے کی طرف سے ہر طرح کی تحریص و ترغیب کے تاریک ماحول میں اپنی دیانت اور ضمیر کے چراغ کو جلائے رکھا تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد اس تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا جو انہوں نے اپنی امی جی کی یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ ذوالفقار احمد چیمہ بتاتے ہیں کہ یوں تو حلال و حرام میں تمیز رکھنے کے حوالے سے ان کے والد گرامی نے مسلسل ان کی تربیت کی لیکن محکمہ پولیس میں اپنی طویل ملازمت کے دوران مجھے اپنی ماں جی کی یہ دعا ہمیشہ یاد رہی کہ ”اے اللہ میرے بچوں کو ہمیشہ رزقِ حلال کمانے کی توفیق دینا اور اگر ان کی کمائی میں حرام شامل ہو جائے تو انہیں دنیا سے اٹھا لینا۔“ ذوالفقار احمد چیمہ اپنی کتاب ”دو ٹوک باتیں“ میں لکھتے ہیں کہ ان کے ایک بھائی مقننہ اور عدلیہ کے بلند عہدوں پر فائز رہے، ایک اور بھائی محکمہ صحت کے اعلیٰ ترین منصب پر فرائض سرانجام دیتے رہے اور خود ذوالفقار چیمہ محکمہ پولیس کی بلند ترین سطح تک پہنچے لیکن ہماری ماں جی کو اپنے بیٹوں کے اعلیٰ ترین عہدوں سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی کہ ان کے بچے دیانت دار اور انصاف پسند ہیں اور یہ کہ ان کے بچوں نے ماں کی تربیت پر کوئی داغ نہیں لگایا۔ایک عظیم ماں کی یونیورسٹی ہی سے یہ سبق مل سکتا ہے کہ پاکستان کو موجودہ تشویشناک صورتحال اور زوال پذیر حالات سے اب بھی نکالا جا سکتا ہے اگر بدنیتی اور بدعنوانی کو ہم اپنے کردار کا حصہ نہ رہنے دیں۔ انصاف صرف عدالتوں میں نہیں بلکہ اگر تھانوں میں، پٹوار خانوں میں، دکانوں، کارخانوں، تاجروں اور ا نتظامیہ سب شعبوں میں انصاف کی حکمرانی قائم ہو جائے تو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کے عروج پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ذوالفقار چیمہ نے پاکستان کو زوال کی پستیوں سے نکالنے کے لئے اپنی کتاب میں ایک خوبصورت نسخہ تحریر کیا ہے۔ اُن ہی کے الفاظ میں پڑھیئے۔ ”کسی بھی ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے پہلی شرط امن ہے اور امن کی فصل صرف انصاف کے بیج سے نکلتی ہے۔ جس کی آبیاری رزقِ حلال کے پانی سے ہوتی ہے۔ انصاف کے چراغ جلیں تو امن کی روشنی پھیلتی ہے۔ جس طرح انسانی جسم کے لئے خون ضروری ہے، اسی طرح انسانی معاشرے کو زندہ اور توانا رکھنے کے لئے انصاف ناگزیر ہے۔ میرٹ، گڈ گورننس اور رُول آف لاءسب آفتابِ عدل کی کرنیں ہیں۔ تاریخ کے جس موڑ پر بھی جس قوم نے بھی انصاف کا پرچم تھام لیا قدرت نے عزت اور عظمت اُس کے قدموں پر ڈھیر کر دی۔“ ذوالفقار چیمہ نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ قانون کے آگے سر جھکا دینا اور اپنی ذات کے خلاف بھی فیصلہ قبول کر لینا حضرت محمد کے پیروکاروں کی میراث تھی لیکن جب ہماری یہ میراث فرزندان تثلیث لے اُڑے تو دنیا کی قیادت کا تاج بھی اُن کے سروں پر سج گیا۔ چیمہ صاحب لکھتے ہیں کہ ملک بھر میں رزقِ حلال کھانے اور خدا خوفی کو دلوں میں راسخ کرنے کے لئے ایک بھرپور تحریک چلانا ہوگی اور وطن عزیز کی تمام ماﺅں کو بچوں کو کھلانے والے ہر نوالے کے ساتھ ان کے دلوں میں رزقِ حلال کی محبت بھی انڈیلنا ہوگی۔ اگر ہمارا معاشرہ کرپشن سے نفرت کو اپنی پہلی ترجیح بنا لے تو بقول ذوالفقار چیمہ پاکستان کا قریہ قریہ انصاف کے نُور سے منور ہو جائے گا اور بدامنی کے اندھیرے ہمارے ملک میں کہیں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ذوالفقار چیمہ کا تعلق چونکہ انتظامیہ کے ایک شعبہ سے ہے۔ وہ انتظامیہ کی آزادی کو عدلیہ کی آزادی سے بھی زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ انتظامیہ آزاد نہ ہو تو عدلیہ کی آزادی کے ثمرات بھی معاشرے تک نہیں پہنچ سکتے۔ چیمہ صاحب قائداعظم کے اس فرمان کو اپنے لئے حرفِ آخر سمجھتے ہیں کہ ”حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ سرکاری افسران کی وفاداری حکومت کے بجائے ریاست اور ریاست کے قانون کے ساتھ ہونی چاہئے۔ سرکاری افسر قانون کے مطابق اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کریں اور اس سلسلے میں کسی کا دباﺅ قبول نہ کریں۔“ ذوالفقار چیمہ نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں یہ بھی بیان کر دیا ہے کہ پاکستان میں سول سروس سے وابستہ افسروں کی تربیت کے دوران صرف رزق حلال کھانے اور سرکاری فرائض کی بجا آوری میں حکومتی دباﺅ قبول نہ کرتے پر زور دیناتو درکنار اس کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ لیکن اپنی ماں کی یونیورسٹی سے تربیت حاصل کرنے والے ذوالفقار چیمہ نے بطور پولیس افسر کبھی اپنا سر حکمرانوں کے ناجائز اور غیر قانونی احکام کے سامنے نہیں جھکنے دیا۔ 

محمد آصف بھلی ....چوتھا ستون

ای پیپر دی نیشن