آج 30 نومبر ہے اور میں اسی کیفیت میں ہوں۔ آج پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس ہے۔ جیالے آ رہے ہیں۔ برادرم نجم ولی خان نے جیالوں کو دکھ بھری مبارکباد دی ہے اور برادرم محترم اثر چوہان نے جناب ”بھٹو کی پیپلز پارٹی کا حشر“ بیان کیا ہے تو مجھے یوم تاسیس یوم حشر لگنے لگا ہے۔ کچھ ایسے سوال رحمان ملک سے ہوئے۔ وہ میڈیا سے گفتگو کے درمیان صحافیوں کے سوالوں سے گھبرا گئے۔ آج بھی عمران خان کی بات ہو رہی ہے اور پیپلز پارٹی میں جھگڑوں کی بات نہ کرو۔ کوئی اپنی بات کرو مگر اپنی بات رحمان ملک بھی نہ کر سکے۔ ایک دن پہلے چیئرمین سینٹ نیر بخاری نے ”صدر“ زرداری سے ملاقات کی۔ نیر بخاری قائم صدر پاکستان بھی ہوتے ہیں۔ اس ”صدارتی“ گفتگو میں 30نومبر بھی آیا ہو گا۔ نیر بخاری گورڈن کالج پنڈی میں میرے شاگرد تھے۔ یہ خود انہوں نے مجھے بتایا ہے۔ ورنہ پرویز رشید اور شیخ رشید لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں۔ نیر بخاری عزت والے خوددار سیاستدان ہیں۔ ”صدر“ زرداری نے انہیں پہچانا۔ ورنہ پرویز رشید مسلم لیگ ن میں چلے گئے۔ وہاں شہباز شریف بھٹو کو لیڈر کی طرح یاد کرتے ہیں۔
ایک سکالر تھے ہمارے ملک میں اور بڑے شاندار استاد تھے۔ پروفیسر حسن عسکری کی تخلیقی تنقید کی بہت دھوم تھی۔ میرے استاد اور دوست ڈاکٹر سہیل احمد خان ان کے بہت قائل تھے۔ کئی چھوٹے موٹے ادیب شاعر یونہی اڑاتے رہتے تھے کہ حسن عسکری ہمارے استاد ہیں۔ ایک دن انہوں نے ان کو بڑی محبت سے منع کیا کہ آئندہ مجھے اپنا استاد مت کہنا۔
مجھے بہادر اور دانشور اور جینوئن باکمال لیڈر بھٹو صاحب یاد آتے ہیں مگر میڈیا والوں نے اسے یاد نہیں کیا اور صرف عمران کے جلسے کے لئے بے قرار ہو رہے ہیں۔ عمران نے بھی کئی دفعہ بھٹو کو یاد کیا مگر وہ اپنے آپ کو بھٹو سے بڑا سیاستدان سمجھنے لگا ہے۔ بھٹو کا نام لیتا ہے تو جیسے بھٹو پر احسان کرتا ہے۔ کچھ لوگ بحث کرتے رہتے ہیں کہ عمران کا حشر ائر مارشل اصغر خان جیسا ہو گا یا بھٹو جیسا ہو گا؟
شہید بھٹو نے اور اصغر خان نے اپنے ساتھ جو کیا وہ بھی دکھ دینے والے کہانی ہے۔ اصغر خان نے بھی تحریک نظام مصطفی میں اپنی مقبولیت کی انتہا کے بعد اپنے لئے جو سمجھا تھا وہی اسے لے ڈوبا مگر وہ اب تک زندہ ہے۔ اللہ انہیں زندہ رکھے مگر زندہ تر ہونا کچھ اور بات ہے اور زندہ جاوید ہونا تو اس سے بھی آگے کی بات ہے۔ بھٹو صاحب سے اختلافات کے باوجود یہ اعتراف ضروری ہے کہ وہ اس طرح پھانسی کے تختے پر چڑھ گئے کہ شاعری بھی ان کے لئے کی جا سکتی ہے۔
دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کا
مگر مجھے تو فیض کا یہ شعر بہت یاد آتا ہے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
خدا کی قسم تختہ دار کے مقام سے کوئی واقف ہی نہیں ہو سکتا جو کوئے یار تک نہیں جاتا۔ آج کی سیاست کی دنیا میں کوئے یار ہی نہیں ہے۔ بس سکینڈل ہی سکینڈل ہیں۔ مگر وہ کون ہے جس نے بھٹو کو وہ کچھ نہ کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ خود بھی بھٹو صاحب نے بہت کچھ کر دیا۔ دوستوں کو ذلیل کیا۔ دوسروں کو خوار کیا۔ اپنے لوگوں سے بچھڑ گیا۔ ان کی جھولی میں جا بیٹھا جن کے خلاف اس نے سیاست شروع کی تھی۔ تو پھر یہ انجام تو اس کی سیاست کا ہونا تھا۔ وہ لوگ اتنے بزدل سیاستدان ہیں کہ وہ اس سے ڈرتے رہے۔ اور ڈرے ہوئے لوگ خدا سے نہیں ڈرتے۔ وہ بھٹو کی طرح بن ہی نہ سکتے تھے۔ انہیں اندر سے ڈر تھا کہ بھٹو ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا تو انہوں نے پہلے ہی وار کر دیا۔ انہیں امریکہ کی آشیرباد اور امداد حاصل تھی۔ عمران خان شروع سے ہی انہی وڈیروں اور دولتمندوں اور کرپٹ سیاستدانوں میں پھنس گیا ہے۔ نئے پاکستان میں پرانی کپتانی دہرائی جائیگی۔ بھٹو نے جلد بازی میں اور کسی سے مشورے کے بغیر وہ کچھ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یا اس طرح کرنا چاہئے تھا جس طرح کرنے کا حق تھا اور وہ محروم لوگ پھر بھی اس کے ساتھ رہے۔ اب تک ساتھ ہیں جنہیں بھٹو نے نظرانداز کر دیا مگر وہ لوگ اس کے نہ بن سکے جنہیں کہ اپنا بنانا چاہتا تھا۔ یوم تاسیس یوم احتجاج کیوں بن گیا۔ یہ بھی انہی لوگوں کا کیا دھرا ہے جو بھٹو کو تختہ دار تک لے گئے تھے۔ تب ان کے خلاف جیالوں میں اتنی بے قراری نہ تھی؟
آج بھی وہی صورتحال پیپلز پارٹی کو درپیش ہے۔ بے نظیر بھٹو نے بھی بھٹو کا راستہ نہ چھوڑا اور اپنے بابا کے انجام کو پہنچ گئی۔ صدر زرداری نے بھی اپنے لئے وہی راستہ بنایا مگر اس راستے پر وہ کام نہ کئے جو بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کئے تھے۔ ”صدر“ زرداری کا انجام ان دونوں جیسا نہیں ہو گا جبکہ ”صدر“ زرداری نے شہید بی بی کی قبر پر کہا تھا میری قبر شہید بی بی کے ساتھ ہو گی۔ لوگ مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہیں مگر پاکستانی سیاست میں قتل ہونے کے لئے بھٹو ہونا ضروری ہے۔ اتنا تو ہو کہ بھٹو اس کے نام کا حصہ ہو۔
جب ”صدر“ زرداری نے بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری رکھا تو مجھے خوشی ہوئی کہ انہوں نے اپنی نسبت سے پہلے شہید بی بی بے نظیر بھٹو کی نسبت کو اہم سمجھا اور ترجیح دی مگر پریشانی بھی ہوئی کہ اب بلاول کا کیا بنے گا۔ مگر ”صدر“ زرداری نے اپنی بیٹیوں کو بھی بختاور بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری بنا دیا۔ اب کیا ہو گا۔ مجھے مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کی موت یاد آ گئی۔ وہ بھائی تھے یہ بہنیں ہیں۔ صنم بھٹو بچ گئی کہ سیاست میں نہ آئی وہ کراچی والے جلسے میں بلاول کے ساتھ تھی جبکہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کبھی سٹیج پر نہ آئی اب لاہور میں یوم تاسیس پر بلاول بھٹو زرداری نہیں آیا۔ یا اسے آنے نہیں دیا گیا۔ الیکشن 2013ء میں بھی اسے پنجاب نہ آنے دیا گیا اور دبئی بھیج دیا گیا پنجاب میں پیپلزپارٹی ختم ہو گئی۔ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بن گئی اور پھر نااہل قائم علی شاہ کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ اب لاہور میں یوم تاسیس منانے کی کیا ضرورت تھی سندھ میں ایسی کوئی تقریب ہو گی تو کیا وہاں بلاول ہو گا؟ رحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور یہاں کے ملک صاحبان کہتے ہیں کہ سکیورٹی مسائل ہیں۔ سیلاب زدگان کے لئے پنجاب کے دورے میں سکیورٹی مسائل نہ تھے اب بلاول ہاﺅس میں بھی سکیورٹی مسائل ہیں تو خود ”صدر“ زرداری کیوں تشریف لائے ہیں۔
بحریہ ٹاﺅن والے ملک ریاض کو کچھ سوچنا چاہئے کہ چکر کیا ہے۔ پشاور میں بھی بلاول ہاﺅس وہی بنا رہے ہیں۔ بلاول کو ان ناقابل تسخیر اور شاندار عمارتوں کےلئے کوئی خبر نہیں ہے۔ بہر حال میں جو کہہ رہا ہوں۔ بھٹو بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو کی محبت میں کہہ رہا ہوں۔ بلاول پیپلزپارٹی کو بچا سکتے ہیں۔ ان کے جینوئن اختلافات ”صدر“ زرداری سے ہیں یا ڈرامہ ہے؟ وہ صدر زرداری سے جھگڑا نہ کریں۔ صرف یہ کریں کہ اپنے نام کے ساتھ زرداری ہٹا دیں۔ اور پھر وہ اپنی حفاظت بھی کریں۔ سکیورٹی مسائل ان کے لئے اب شروع ہوں گے مگر پیپلزپارٹی بچ جائے گی۔