ایوانِ صنعت و تجارت لاہور میں انقلابی فیصلہ

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایوان صنعت و ِتجارت لاہور ) کے صدر شیخ محمد ارشد نے صدارت کا حلف اٹھا نے کے بعد سب سے پہلا اعلا ن یہ کیا ہے کہ ایوانِ صنعت و تجارت لاہور میں قومی زبان اردو نافذ کردی گئی ہے ، سب سے اولین کام کے طور پر رکنیت فارم قومی زبان اردو میں شائع کر دیئے گئے ہیں ایوانِ کے تمام شعبوں کو قومی زبان میں خط و کتا بت رائج کرنے کی ہدایا ت جاری کر دی گئی ہیں ، شیخ صاحب کے انقلا بی اقدا م سے تما م اراکین خصو صاً ایسو سی ایٹ کلا س کے اراکین بے حد خو ش ہیں جو زیا دہ تر شہر کی مارکیٹوں اور چھوٹے کاروبا رسے وابستہ ہیں جسکے باعث وہ احسا س کمتری میں مبتلا رہتے تھے اور انگریزی نظام کی وجہ سے ایک مخصوص طبقہ ہی ہمیشہ سے ایوان کے اعلیٰ عہدوں پر منتخب کیا جا تا تھا جبکہ کم تعلیم یافتہ کاروباری حضرات صرف رکنیت ہی حا صل کر پاتے تھے مگر انتخابات کی منا زل تک انکی رسا ئی با لکل نہیں تھی ۔ صنعتکار وں کے تمام طبقو ں نے صدر صاحب کے اس فیصلہ کو سراہا ہے جو ایوان صنعت و تجارت کی تا ریخ میں بلا شبہ تا ریخی فیصلہ کے طور پر یا دگار رہے گا ،جس سے یقینا کاروباری سر گرمیوں میں بھی اضافہ اورملکی معیشت کو مضبو ط کرنے کے مواقع پیدا ہو نگے ۔ چھ عر صہ قبل ہی سپریم کو رٹ آف پاکستان نے ملک بھر میں قومی زبان کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو اردو زبان نا فذ کر نے کا حکم دیا تھا جس پر حکومت نے بھی اردو کے نفاذ کیلئے غو ر شر وع کر دیا ہے اور مختلف محکموں کے ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں قا ئم کر دی ہیں ۔ اُن پر کب عمل ہو گا اس کا فیصلہ آ نیوالے دنو ں میں ہو گا ۔حکومتی عہدیداران قومی زبان نا فذ کر نا چاہتے ہیں، مگر بیوروکریسی حسب ِ عا دت اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے میں کو شا ں نظر آتی ہے ، لیکن حکومت کے آ گے وہ بے بس ہوں گے اور انہیں قومی زبا ن کو عزت و اہمیت دینی پڑیگی ۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ شاید وہ قومی زبان نافذ کرنے میں کامیا ب ہو جائینگے مگر وہ اس کا م میں کامیا بی حا صل نہ کر سکے ۔ اس وقت ادارہ قومی تشخص کے با نی صدر ڈاکٹر اختر علی قومی زبان کے نفاذ کیلئے بے حد متحر ک تھے ،نفا ذ اُردو کیلئے زبر دست تحریک کے ذریعہ جدو جہد کر رہے تھے انہوں نے اپنی کتاب " دو قومی نظر یہ اور ہمار ا قومی تشخص " میں اُردو کی اہمیت کو شا ندار طریقہ سے اجا گر کیا ہے اور یہ ثا بت کیا ہے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی اپنی قومی زبا ن رائج کر کے ہی تر قی کی ہے جس کی مثال دیتے ہو ئے انہوں نے لکھا ہے کہ جاپا ن ، جر منی چین ، بھارت یو رپ کے تمام مما لک نے ذریعہ تعلیم اپنے اپنے ملکوں کی قومی زبان کو بنا کر ہی ترقی کی تھی پاکستان ان بد قسمت مما لک میں شا مل ہے جہاں اسکی اپنی زبا ن کی بجائے انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا دیا گیا ہے جس کی آڑ لے کر انگلش میڈیم سکول ایک انتہا ئی منا فع بخش کاروبا ر بن چکے ہیں اور ہزاروں روپے ما ہوار بچوں سے بٹور رہے ہیں ، یہ ایک بزنس بن چکا ہے جوگلی گلی کوچہ کوچہ لو ٹ مار میں مصروف ہے۔ یہی ادارے ملک میں شرح خواندگی میں شر منا ک حد تک کمی کے ذمہ دارہیں ۔ انہی تعلیمی اداروں کی دیکھا دیکھی حکومت نے ملک بھر میں دانش سکو لوں کے نام سے اربو ں روپے لگا دیئے لیکن نتیجہ صفر ہی رہا ۔آج تک ان سکولوں کے طالب علم کسی بھی سطح پر کسی بھی امتحان میں نمایاں پوزیشن نہیں لے سکے ۔ ان سکولوں میں بڑی بڑی تنخواہوں پر انگلش میڈیم اسا تذہ رکھے گئے اگر یہ سر ما یہ ان سرکاری سکولوں پر خرچ کیا جا تا جن کی دیوار یں ہی نہیں ہیں ، فرش ہی نہیں بلکہ عمارتیں ہی نہیں اور بچے سر دی گرمی میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حا صل کرتے ہیں ، ایسے سکول بھی ہیں جہاں نہ صرف طا لب علموں بلکہ اسا تذہ کیلئے بھی کر سیاں نہیں ہیں اگر ان سکولو ں کی حا لت ٹھیک کر لی جاتی تو یقناً شر ح خواندگی میں اضافہ ہو تا ۔ ڈاکٹر اختر علی مر حوم نے اپنی کتاب میں ایک ایسا واقع لکھا ہے ، جسے پڑھکر قومی زبا ن کی حیثیت اور شیخ محمد ارشد صا حب کے فیصلہ کی اہمیت اور خلو ص واضح طور پر نظر آئیگا ۔وہ لکھتے ہیں " دوسری جنگ عظیم میں جب اتحادی فوجوں کا کمانڈر جا پا ن کے شہنشاہ کے پاس آیا اور ہتھیا ر پھینکنے کیلئے کہا تو جا پان کے شہنشا ہ نے جس کے ملک پر اتحادیوں نے ایٹم بم پھینک کر تبا ہ بر با د کر دیا تھا اتحا دی کمانڈر سے کہا کہ ہم ایک شر ط پر ہتھیا ر پھینکنے کیلئے تیار ہیں اور وہ شرط یہ ہے کہ جا پا ن کی قومی زبان کو ختم نہیں کیا جائیگا ، اپنے حکمرانوں سے پوچھ کر آئو بصو رت دیگر آخری جا پا نی کی ہلاکت تک ہتھیار نہیں پھینکے جا ئیں گے اور جنگ جا ری رہیگی ۔اتحا دی کما نڈر اپنے سر براہوں سے مشورہ کے بعد آیا اور شہنشا ہ سے کہا کہ ہم آپ کی قومی زبان کو ختم نہیں کرینگے ، آپ ہتھیا ر ڈا ل دیں ۔شہنشا ہ جاپان نے اپنی شر ط منوا کر اپنے ملک کی قومی زبان کو جاری کھا گزشتہ روز ادارہ قومی تشخص کا ایک دو رکنی وفد محتر م شیخ محمد ارشد صاحب کو اس تاریخ سا ز فیصلہ پر مبا رکبا د دینے گیا ۔ اس وفد میں ،میں بطور سیکرٹری جنرل ادارہ قومی تشخص اور میرے ساتھ محترم حا کم علی سا ہی ایڈ منسٹریٹر کارڈیکس ہسپتال بھی شا مل تھے ۔ ہم نے شیخ صاحب کو بانی صدر ڈاکٹر اختر علی مرحوم کی کتاب پیش کی اور مو جودہ صدر ڈاکٹر صدف علی کی طرف سے قومی زبان نا فذ کرنے پر مبارکباد پیش کی ۔شیخ محمد ارشد صا حب گزشتہ پندرہ سا ل سے مختلف حیثیتوں ایوا ن ِ صنعت و تجارت کی خدمت کررہے ہیں ،تمام مسا ئل پر انکی گہری نظر ہے ۔ایوان کے چھوٹے بڑے تمام عہدوں پر کام کرنے والے لوگوں سے وہ ذاتی طور پر واقف ہیں اور ان کی خوبیوں سے بھی آگاہ ہیں ۔ہم سب کی دعا ہے کہ شیخ صاحب ایوانِ صنعت و تجار ت کو ایک سا ل میں بلندیوں پر پہنچا دیں جس طرح جاپانی شہنشا ہ نے اپنی قوم کیلئے فیصلہ کر کے اپنی قوم کو بلندیوں تک پہنچا دیا تھا شیخ صا حب زندہ با د، قومی زبان زندہ با د۔

ای پیپر دی نیشن