کوئی پڑھا لکھا آدمی الیکشن کیوں نہیں لڑتا؟

نبیل گبول نے کہا ہے کہ کراچی میں 5 دسمبر کو بلدیاتی الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔ نبیل گبول نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں رہے ہیں۔ سنا ہے اب تحریک انصاف میں جانے والے ہیں؟ ان کی بات کراچی کے حوالے سے معنی خیز ہے۔ وہ یہ بھی بتائیں کہ رینجرز کی طرف سے 14 دن کا ریمانڈ 4 دن کا سندھ پولیس نے بنا لیا ہے۔ تو کیا یہ حکم ’’صدر‘‘ زرداری نے قائم علی شاہ کو اپنے ہمراز یار ڈاکٹر عاصم کو بچانے کے لیے جاری کیا ہے۔ تو اس بات کا 5 دسمبر والے الیکشن ملتوی ہونے سے کوئی تعلق ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے مقدمے کا اب کیا بنے گا؟ 

یہ معاملہ رینجرز کے لیے چیلنج تو ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے مخاطب تو جرنیل ہیں۔ رینجرز کے ڈی جی بھی ایک جرنیل ہیں۔ کیا سندھ پولیس نے رینجرز سے ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ چھین لیا ہے۔ سیاستدان پاک فوج کو بھی پاکستانی پولیس بنانا چاہتے ہیں۔ کم از کم رینجرز ہی پوری طرح ان کے ماتحت ہوں۔
اب رینجرز نے جو کچھ کیا ہے وہ سندھ پولیس کب ہونے دیتی تھی۔ قائم علی شاہ کے پچھلے پانچ سال میں بڑی مشکل سے حالات خراب کیے تھے۔ وہ رینجرز نے ٹھیک کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عاصم کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ اسے چھڑوانے کا اب حیلہ بہانہ کیا ہے۔ جب رینجرز نے ڈاکٹر عاصم سے بہت کچھ اگلوا لیا ہے ’’صدر‘‘ زرداری کو اس سے کیا خوف اور خطرہ ہے۔ وہ دبئی میں جا کے پناہ گزیں ہو کے بیٹھ رہے ہیں۔ اب انہیں وہاں کوئی فکر نہیں ہے۔ وہاں نہ نصرت بھٹو ہیں اور نہ بے نظیر بھٹو ہیں۔ ایک بلاول زرداری بھٹو ہے۔ اس کو پاکستان بھجوایا ہے۔ وہ اب منتظر ہیں کہ پاکستان واپس آنے کے لیے حالات کب سازگار ہوں گے۔ دوسری وصیت انہوں نے تیار کر لی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ دوبارہ ایوان صدر میں پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔
نیا پاکستان بناتے بناتے عمران خان نیا کراچی بنانے کے جنون میں پڑ گیا ہے۔ خواتین کا جوش و خروش دیکھ کر محسوس ہوا کہ ریحام خان کو طلاق کے واقعے کے بعد بھی عورتیں لڑکیاں اور بچیاں اس کے ساتھ ہیں۔ رقص کرتی ہوئی لڑکیاں دیکھ کر امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ جماعت کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران کو یہ پذیرائی سراج الحق کی وجہ سے ملی ہے۔ کراچی پہلے جماعت اسلامی کا تھا اسے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی نے سپرد کیا۔ کراچی یونیورسٹی میں ’’مہاجر طلبہ‘‘ نے وہی کچھ کیا جو اسلامی جمعیت طلبہ نے کیا تھا۔
عمران خان نے کراچی میں بھی آخر وہی کیا جو لاہور میں حلقہ 122 میں کیا تھا۔ ووٹ ڈالنے وہ زمان پارک میں اسلام آباد سے نہ آیا اور علیم خان بے چارہ زمان پارک سے بھی ہار گیا۔ کراچی میں دھوم دھڑکا مچانے کے بعد آخری جلسہ عام لانڈھی میں نہ پہنچا اور کراچی سے اسلام آباد کی طرف پرواز کر گیا۔ سراج الحق مزار قائداعظم پر چلے گئے۔ سراج الحق سراج الحق مرد مومن مرد حق۔ یہ نعرہ عمران خان کی تقریر کے دوران میں لگا۔ وہاں سٹیج پر تحریک انصاف کی مقامی قیادت کو تحریک انصاف کے متوالوں نے پتھر اور انڈے ٹماٹر مارے۔ وہ کرسیوں کے پیچھے جان بچاتے رہے۔ کچھ لوگ سٹیج پر سے کود گئے۔ حاضرین بھی سٹیج خالی کرا کے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس طرح بھگدڑ مچ گئی۔ اب دیکھیں 5دسمبر کو کیا ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں پہلا بلدیاتی الیکشن 30 نومبر کو ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں مقابلہ حکومتی جماعت ن لیگ سے ہے۔ کراچی میں مقابلہ حکومتی جماعت پیپلز پارٹی سے ہے۔ ایم کیو ایم سے ہے وہ بھی تقریباً حکومتی پارٹی ہے۔ خیبر پختون خواہ میں بھی تحریک انصاف کا مقابلہ حکومتی جماعت سے تھا۔ تحریک انصاف خود اپنے مقابلہ میں آ گئی تھی۔ یہاں حکومت تحریک انصاف کی ہے۔ پاکستان میں اصل اپوزیشن عمران خان یعنی تحریک انصاف ہے۔ اپنی حکومت کے خلاف بھی اپوزیشن وہ خود ہیں بلکہ خود بخود ہیں۔ نواز شریف کے بقول عمران خان خود اپنا سب سے بڑا مخالف ہے۔ تو خورشید شاہ کس خوشی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمن سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
روٹین میں 30 نومبر کو اسلام آباد میں مقامی چھٹی کا اعلان ہو گیا مگر وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ الیکشن کے دن چھٹی کسی ملک میں نہیں ہوتی۔ اسلام آباد میں دفاتر کھلے رہیں گے۔ 2 بجے چھٹی ہو گی۔ یہ لوگ 2 بجے کے بعد ووٹ کاسٹ کر لیں گے۔ ورنہ چھٹی کا دن تو گھر میں سو کر گزارا جاتا ہے۔ کوئی باہر ہی نہیں نکلتا تو ووٹ کیسے کاسٹ کرے گا۔ ایک شعر چودھری نثار کی نذر کیا جاتا ہے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
ہمیں عاشق سیاستدانوں نے مارا ہے۔ لوٹ مار کی ہے۔ مارا ماری جاری ہے۔ بلکہ جاری و ساری ہے۔ چودھری صاحب چاہتے ہیں کہ حکومتی لوگ سبق یاد کریں۔ سبق سیکھنا بھی ضروری ہے۔ کوئی بھی نہیں سیکھتا۔ مکتب عشق ویران پڑا ہے۔ مکتب حکومت اور مکتب سیاست ہر حال بھرا بھرا رہتا ہے۔ یہاں پاس ہونے اور فیل ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نالائق لوگ یہاں ’’پڑھتے‘‘ ہیں۔ پارلیمنٹ ایسا ہی مکتب ہے۔ یہاں نالائق لوگ آتے ہیں۔ ایک دفعہ پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کے لیے گریجوایشن کی شرط رکھی گئی تھی تو جعلی ڈگریوں کا ایک کاروبار چل پڑا تھا۔ ڈگری کی شرط زرداری صاحب نے ختم کی تھی کہ انہوں نے صدر بننا تھا۔ اور صدر کو پارلیمنٹرین نے منتخب کرنا تھا مگر جو جعلی ڈگری کی بنیاد پر ممبر اسمبلی بنے تھے۔ ان پر مقدمے ہوئے جس کو پارلیمنٹ سے نکلنا پڑا۔ عدالت نے اسے ساری عمر کے لیے نااہل نہ کیا تھا۔ وہ دوبارہ منتخب ہو کے آ گیا۔ عدالت ہمیشہ ہمیشہ ایسے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ساتھ رہی ہے۔ پڑھا لکھا ہونا پاکستان میں کسی عہدے اور منصب کے لیے غیر ضروری ہے۔ کوئی پڑھا لکھا آدمی الیکشن نہیں لڑتا ورنہ اس کی ضمانت ضبط ہو جائے۔ ایک بظاہر باوقار امیدوار سے پوچھا گیا کہ قومی ترانہ کس نے لکھا۔ اس نے جواب دیا لیاقت علی خان نے۔ شاید اسی لیے انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ دو ایک کو چھوڑ کر کسی وزیر کسی ممبر اسمبلی کو قومی ترانہ یاد نہ ہو گا۔
یہاں وزیر داخلہ چودھری نثار ایسی باتیں کرتے ہیں کہ لگتا ہے وہ مطالعہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کوئی وزیراعظم نہیں آیا جس کے پاس لائبریری ہو مگر وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں چودھری نثار ہیں۔ وہ کسی مسئلے میں پھنس جاتے ہیں تو چودھری صاحب سے ملاقات کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن