یہ جو گیارہ بارہ وزیر بنے ہیں ان میں برادرم سلمان رفیق اور برادرم خواجہ عمران نذیر شامل ہیں دونوں سے دوستی ہے۔ سلمان رفیق بہت ملنسار بردبار بلکہ کسی حد تک خاکسار آدمی ہیں۔ وہ خواجہ سعد رفیق کے بھائی ہیں مگر وہ اپنے بھائی جیسی شخصیت نہیں ہیں۔ کبھی کبھار بہت معمولی کام کہہ دیتا ہوں تو وہ اسے بھی بڑے کام کی طرح انجام دیتے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق سے بھی دوستی ہے مگر وہ بہرحال ایک ”اہم“ آدمی اپنے آپ کو سمجھنے کے باوجود بہت محبت سے ملتے ہیں۔ کبھی کام نہیں پڑا۔ اور زیادہ امید بھی نہیں ہے۔ میں وزیر شذیر لوگوں سے مل لیتا ہوں اور ”سیاسی محبت“ شیئر کر لیتا ہوں مگر ان سے کوئی توقع نہیں رکھتا۔ سلمان رفیق سے بھی کوئی ایسا کام نہیں کہا جسے کام کہا جا سکتا ہو۔ وہ جذبے والے آدمی ہیں۔
خواجہ عمران نذیر مستعد آدمی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کیلئے بہت مصروف رہتے ہیں۔ پارٹی کے کسی آدمی کا الیکشن ہو تو وہ امیدوار سے بھی زیادہ امید سے ہوتے ہیں۔ سیاسی صلاحیتوں والے آدمی ہیں۔ تیسرا آدمی جنہیں میں گیارہ وزیروں کی قطار میں پہچان سکتا ہوں وہ زعیم قادری ہیں۔ ان سے صاحب سلامت اچھی ہے مگر دوستی نہیں ہو سکی۔ وہ حکومت کے ترجمان ہیں۔ مگر دل کی ترجمانی کرنا نہیں آئی۔ اپنی طاقت کا احساس تو رہتا ہے۔ طاقت کا اندازہ نہیں کہ طاقت اصل میں کیا ہے؟
ایک دلچسپ بات اس دوران یہ ہوئی کہ میں نے ان تینوں کو مسیج کیا مگر جواب صرف سلمان رفیق کا آیا۔ ان سے توقع ہے کہ وہ لوگوں کی خواہشوں کا کم از کم جواب تو دیں گے۔ باقی لوگوں بہت لوگوں یعنی وزیر شذیر لوگوں کو صرف لاجواب کرنا آتا ہے۔ مجھے ایم پی اے عارف سندھیلہ نے فون کیا۔ اسے تھوک کے حساب سے آخری دنوں میں وزیر بنائے جانے والوں میں اپنے نہ ہونے کا خیال ہے۔ مجھے کہا کہ کالم لکھو، وہ سادہ آدمی ہے کالم لکھنے سے وزارتیں ملتیں تو کالم نگار کیا سے کیا نہ ہو جاتے۔ کچھ کالم نگار بہت ”امیر شمیر“ ہو گئے ہیں تو شاید وہ وزیر شذیر بھی بن جاتے؟ دو ایک لوگ سفیر وغیرہ تو بن گئے تھے اور سرکاری افسر بھی بن گئے ہیں۔ کالم نگار کا سرکاری افسر بن جانا بہت حیرت انگیز ہے تو ولولہ انگیز بھی ہے۔
جس دن جنرل باجوہ کے آرمی چیف ہونے کا اعلان ہوا تھا ہم گکھڑ سے گزر کے وزیر آباد جا رہے تھے۔ برادر عزیز عدیل میرے ساتھ تھا۔ وزیر آباد میں بہت بڑی سماجی اور فلاحی شخصیت سید لخت حسین اور ان کے بہت مستعد بھائی سید ضیا النور نے ایک صوفی نائٹ کا اہتمام کیا تھا۔ یہ تقریب بہت شاندار تھی۔
جہڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے سیاں مل
اوہ اوہناں دے درد دی تاب نہ سکیاں جھل
گکھڑ میں لوگ جشن منا رہے تھے یہ جشن اپنے کالموں میں کئی لوگ اب تک مناتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے تعلقات کو اپنی خواہشات کے تابع رکھتے ہیں۔ یہ عقیدت والے لوگ ہیں جبکہ کچھ لوگ عقیدے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں یہ بحث تو مولوی کرتے ہیں۔ مولوی بھی ایسے ہیں جو صحافیوں اور کالم نگاروں کو متاثر اور مستفید کر سکتے ہیں۔
لوگوں نے تو صدر پاکستان جنرل ضیاءکیلئے بھی ایسی کئی خبریں اڑائیں۔ پھر ان کے اپنے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ جنرل ضیاءگیارہ سال تک پاکستان کے حکمران رہے۔ اب وہ شہید صدر ضیاءکہلواتے ہیں۔ کیا خیال ہے اب ان کیلئے خبریں اڑانے والوں کا۔ ہمارا شاید مذہبی مزاج بن گیا ہے کہ ہر اہم آدمی کیلئے آغاز میں ایسی افواہیں چلتی ہیں۔ پھر چل چلاﺅ ہوتا ہے اور آٹھ دس سال بخیر و خوبی گزر جاتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ہمارے سپہ سالار آرمی چیف جنرل باجوہ ایسی معرکہ آرائی کریں جو پاکستانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔ سنا ہے جنرل باجوہ کیلئے عرفان صدیقی مریم نواز اور اسحاق ڈار کی ہمدردیاں تھیں۔ عرفان صدیقی کیلئے کہا گیا کہ وہ جنرل باجوہ کے استاد ہیں۔
آئی ایس آئی کو مبارک ہو کہ پھر بھارت میں ہونے والے ایک بڑے واقعے کی ذمہ داری اس پر ڈال دی گئی ہے۔ بھارت آئی ایس آئی سے بہت ڈرتا ہے۔ سنا ہے وہ جنرل راحیل شریف سے بھی ڈرتا تھا۔ اب جنرل باجوہ سے بھی ڈرنا شروع کرے گا۔ اصل میں پاکستان سے محبت کرنے والوں سے بھارت کا خوف بڑھتا ہی جاتا ہے۔ دشمنی میں اگر بدنیتی بھی شامل ہو تو خوف زدگی لازماً طاری ہوتی ہے بلکہ جاری و ساری رہتی ہے۔
بھارت نے الزام لگایا ہے کہ خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ ہرمندر سنگھ کو آئی ایس آئی نے رہا کرایا ہے تو پھر یہ بھی بھارت تسلیم کرے کہ دوسرے ہی دن ہرمندر سنگھ کی گرفتاری بھی آئی ایس آئی کی مہربانی سے ہوئی ہو گی۔
وزیرآباد میں مولوی نائٹ کا اہتمام ہوتا تو میں نہ جاتا۔ مجھے صوفیوں سے محبت ہے۔ برصغیر میں اسلام صوفیوں نے پھیلایا۔ صوفی نائٹ منانے کا خیال بذات خود ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ بہت خواتین و حضرات تھے ایک زندہ رات جن کی آنکھوں میں جاگ رہی تھی۔ میرے خیال میں رات آدھی رات کے بعد شروع ہوتی ہے۔ دن کو تو سب جاگتے ہیں۔ جاگنا راتوں کی شان ہے۔ راتوں کو جاگنے والے ہی دلوں کو بیدار رکھتے ہیں۔
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
سید لخت حسنین عالمی سطح پر ایک فلاحی تنظیم چلاتے ہیں ”مسلم ہینڈ“ کا پورے عالم اسلام میں فلاح و بہبود کا ایک نظام ہے جسے بہت شاندار طریقے سے رائج کرنے کی کامیاب کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں وزیرآباد شہر کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ یہ اس حوالے سے مرکزی جگہ ہے لخت حسنین کی سرپرستی اور سربراہی میں ضیا النور اس کیلئے بہت محنت کر رہے ہیں۔ وہ سید لخت حسنین کے چھوٹے بھائی ہیں وہ عدیل شیخ اور فرح ہاشمی سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ جیلوں میں لوگوں کیلئے آسانیاں فراہم کرنے والی تنظیم ”رہائی“ کیلئے نرم گوشتہ رکھتے ہیں۔ لخت حسنین وزیر آباد کو تعلیمی میدان میں ایک ماڈل سٹی بنانا چاہتے ہیں۔