پی پی پی یوم تاسیس:عزم کا ایک اور سفر!

Dec 01, 2016

نیلم جبار (سابق صوبائی وزیر)

کتنی آسانی سے ہر کوئی یہ کہہ دیتا ہے کہ ’’منافقت سیاست کا جزو ہے‘‘۔ کہنے والے بھی احتیاط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور ثابت کرنے والے بھی فرائض اور ذمہ داری کو نیست و نابود کر نے سے باز نہیں آتے۔
کہیں سامان مسرت، کہیں ساز غم ہے!
کہیں گوہر ہے کہیں اشک، کہیں شبنم ہے
مغربی معاشرے پر تنقید اور ظنز کے سینکڑوں تیرونشتر چلائے جا سکتے ہیں کیونکہ جانچنے اور پرکھنے کے لئے ہماری اپنی تیار کردہ کسوٹی ہے۔ کاش ہم اُس حقیقی پیمانے کو ذہن نشین رکھیں جو محسن انسانیت محمد مصطفی ؐ نے ہمیں دیا۔ آپ ؐ نے سیاست اور خدمت کو یکجان کرتے ہوئے معاشرتی و معاشی خدمت ہی نہیں آخری کے بہتر نتائج کو بھی عملی جامہ پہنایا۔ گویا سیاست کو عبادت بنا دیا، سیاست کو بنائو سے جوڑ دیا، سیاست کو سوشیالوجی کا محور و مرکز ثابت کیا، سیاست کو محبت اور محبت کو سیاست کی آن بان بنایا، یہی نہیں خارجی و داخلی و عدالتی و اقتصادی امور کو صداقت و امانت و شجاعت کی شاہراہ پر گامزن ہونے اور رہنے کا طریقہ وسلیقہ بھی دیا۔ ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اسلام کے خیر کے پہلو اور صداقت عامہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اپنی کمزریوں پر قابو پانے کی بجائے کبھی مغرب پر تنقید کی انتہا کی اور کبھی حلیفوں اور حریفوں پر۔ کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ پہلے اپنی انفرادی اور اجتماعی غلطیوں اور کمزوریوں پر قابو پا لیں، پہلے اپنے فرائض میں استقامت اور اپنی سیاست میں دیانت لے آئیں، پھر اوروں پر تنقید کے دریچے کھولیں۔
یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سیاستدان (قیادت)، مذہبی رہنما اور استاد کی ’’بشری تقاضوں‘‘ کے حوالے سے کی گئی غلطیوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ یہ ایک اچھائی ہے اسے تسلیم کرنا بنتا ہے۔ کسی کی جائز تعریف کرنے سے کبھی کبھی حسن و خوبی کی آمد اپنی جانب بھی آ جاتی ہے۔ جہاں جمہوریت کی بقا کیلئے سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہوتا ہے، وہاں فراہمی انصاف، تعلیم و صحت کا انتظام وانصرام اور رواداری کے استحکام کو جلا بخشتا اور برسراقتدار سیاسی جماعتوں کا فرض ہوتا ہے۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کا باہمی ربط کسی بھی ملک کی اٹھان اور گراوٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سرحدوں کی پاسبانی افواج کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ دفاع، معیشت اور عدلیہ ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے ہوتے ہیں۔ پس سیاست اور عبادت ہمیشہ ریاضت اور استقامت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ تاریخ پاکستان اور پاکستانی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (مختلف گروپس، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک استقلال کا ایک اہم کرداررہا ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے ایم کیو ایم کی سیاست کو بھی دوام ملاتا ہم پاکستان پیپلز پارٹی آئین کی خالق ہونے کے ناطے یعنی 1973ء کا آئین دینے کے سبب ایک روایتی جمہوری پارٹی کی اہمیت رکھتی ہے۔ آئینی امور کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کو نا صرف 1973ء کے تاریخی کردار کے سبب ممتاز جانا جاتا ہے بلکہ جب مختلف آمروں جنر ل ضیاء الحق سے جنر ل پرویز مشرف تک نے 1973ء حلیہ بگاڑا تو جب جب پیپلز پارٹی کو موقع ملا تو اس نے اس کو اصل شکل میں لانے کی بھر پور کوشش کی۔ بالخصوص 8ویں ترمیم اور 17ویں ترمیم کو 18ترمیم کے ذریعے آمرانہ آلودگیوں سے پاک کرنے کا سہرا بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے سر ہے۔ ورنہ آمروں کی کوشش تھی کہ پارلیمنٹ محض ربڑ سٹمپ بنی رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پی پی پی اپنی سوچ اور عمل کے اعتبار سے ہمیشہ آئین اور جمہوریت کو استحکام بخشنے کے لئے بر سرپیکار رہی۔ ماضی میں اگر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے استحکام پاکستان کی بنیاد رکھی اور اپنی ذاتی دلچسپی، ذاتی کاوشوں اور محسن پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان کو ذاتی گزارش سے پاکستان لائے اور ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی اسی طرح 18ویں ترمیم کے ذریعے جمہوریت کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے 8اپریل 2010ء کو منظور ہوئی اور 19اپریل 2010ء کو اُس وقت کے صدر پاکستان جناب آصف زرداری نے اس پر دستخط کر دیئے۔ جس کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اُس وقت 15اپریل 2010ء کو ایکٹ کی شکل دیدی۔ اس موقع پر سبھی پارٹیاں جو اُس وقت ایوان کا حصہ تھیں اُنہوں نے اتفاق رائے سے منطور کرایا۔ ایک تاریخ وہ بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ پی پی پی کی کاوشوں اور اداروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے الیکشن 2008 کے بعد پورے ایوان نے یوسف رضاگیلانی کو بلامقابلہ وزیراعظم منتخب کیا۔ پی پی پی کی سوچ اور فکری یہ بھی ایک تاریخی اور قابل تحسین پہلو ہے کہ بے نظیر بھٹو نے میاں نواز شریف سے مل کر میثاق جمہوریت کو متشکل کیا۔ میثاق جمہوریت وہ بنیاد ہے کہ جس کی بدولت آج پاکستان میں جمہوریت کا علم بلند ہے۔ آمر نے تیسری دفعہ وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم بننے کا راستہ بھی بند کر دیا تھا۔ لیکن پی پی پی ہی کی جمہوریت پسندی ہے کہ آج میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف حکومتوں میں براجمان ہیں۔ پی پی پی نے 1990ء کی دہائی کی سیاست کے خاتمہ کیلئے سب سے زیادہ عملی کردار ادا کر نے کی روشن تاریخ رقم کی۔ 2008تا2013ء کے مشکل ترین دور میں جب دہشت گردی عروج پر تھی، ڈالر کی قیمت آسمانوں پر تھی، عالمی منڈی میں پٹرول اور کوکنگ آئل کو آگ لگی ہوئی تھی پھر ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کی سازشیں اپنے عروج پر تھیں اس صورتحال میں آغاز حقوق بلوچستان، بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے 50 لاکھ افراد کی مدد، BESOSکے ذریعے 80اداروں کے 5لاکھ افراد کو 12فی صد کے شیئر دینا۔ این ایف سی ایوارڈ کا کارنامہ ،گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینا، 17ارب ڈالرز کے ریزرو جیسے کارنامے انپے سیاق وسباق کے تناظر میں بہت اہم تھے۔ الیکشن 2008ء سے قبل پاکستان آنا اور میاں نواز شریف کیلئے واپسی کے راستے ہموار کرنا۔ 18اکتوبر 2007ء میں اپنی آمد پر سانحہ کارساز کا زخم سہنا پھر 27دسمبر 2007ء کو جام شہادت نوش کرنا پاکستانی تاریخ میں باب جمہوریت کی عظیم تر ہسٹری ہے۔ بے نظیر بھٹو نے ہمت کی بدولت بیگم نصرت بھٹو جیسی ماں اور تدبر و شجاعت کا ورثہ قائد عوام ذوالفقار بھٹو سے پایا۔ آج بلاول بھٹو زرداری بطور چیئرمین پی پی پی سرگرم عمل ہیں۔ حسن ظن کہتا ہے کہ وہ پارٹی میں تازہ روح پھونکیں گے۔ نوجوان قیادت ہونے کے ناطے 49ویں یوم تاسیس 30نومبر 2016ء کی وساطت سے نوجوانان پاکستان میں تحریک بیدار کرینگے۔میں بحیثیت ایک سیاسی کارکن اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ محنت، تدبر اور عزم کے ساتھ ساتھ دینداری کی آبیاری ہی سیاست وجمہوریت اور حکومت کے گلشن کو سرسبزو شاداب کر سکتی ہے۔ میاں رضا ربانی اور اپوزیشن لیڈ خورشید شاہ، سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی، نویدقمر کے سنگ سنگ قمرالزماں کائرہ (صدر وسطی پنجاب ) مخدوم احمد محمود (صدر جنوبی پنجاب) نثار کھوڑو (صدر سندھ پی پی پی) ہمایوں خان (صدر پی پی پی اے جے کے) علی محمد خٹک (صدر پی پی بلوچستان)، مہدی شاہ (جی بی)، چودھری عبدالمجید، خواجہ طارق سعید اور فیصل ممتاز راٹھور (آزاد کشمیر) کو بنائو کی سیاست کیلئے ایک دفعہ پھر اُٹھنا ہو گا۔ سیاست کو خدمت ہی نہیں عبادت بنانے کے عزم کا یہ موقع یہ ثابت کر سکتا ہے کہ پی پی محض ایک سیاسی پارٹی ہی نہیں جمہوری فکر اور عوامی سوچ کا نام ہے۔ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے دھرنا سے پانامہ لیکس تک کے بحرانوں میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ہے۔ 90کی دہائی کی سیاست کی بجائے پارلیمان اور جمہوریت کو مقدم جانا اور کہا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

مزیدخبریں