پاکستان ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہونے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ ہر روز نت نئی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے عالم اقوام میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ پاکستان اس ترقی کی دوڑ کا حصہ بننا چاہتا ہے اور بننا بھی چاہیئے۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ٹیکنالوجی عمومی طور پر دیر سے متعارف کروائی جاتی ہے۔ ریڈیو سےDTIتک کا سفر قریباً 70سال پر محیط ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے 16برس تک سامعین محض ریڈیو کو تفریح و اطلاعات کا ذریعے سمجھتے تھے۔ 16برس بعد جب بلیک اینڈ وائیٹ ٹیلیویژن نے ریڈیو کی جگہ لی۔ اس وقت دنیا میں رنگین نشریات کا آغاز ہو چکا تھا۔ عرصہ دراز تک پرائیویٹ ٹی وی چینلز نشریات چلانے کی اجازت نہ لے سکے اور ٹی وی پر اسٹیٹ ٹیلی ویژن کا راج رہا۔ رفتہ رفتہ پرائیویٹ ٹی چیلنز اسکے بعد ڈش انٹینا اور پھر کیبل کے نظام نے عوام الناس کو مزید سہولتیں فراہم کر دیں۔ کیبل کے آغاز ہی سے کیبل آپریٹرز نے سیٹلائٹ کے ذریعے مختلف چینلز کی نشریات حاصل کر کے پورے ملک میں کیبل کا جال بچھا دیا اور آج بھی لوگ بہت ارزاں فیس ادا کر کے ٹیلیویژن کی نشریات سے محظوظ ہو رہے ہیں۔
میں نے پہلے کہا کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکنالوجی کو مدت بعد متعارف کروایا جاتا ہے۔اس کی مثال DTHکا سسٹم ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں یہ سسٹم استعمال نہ ہو رہا ہو۔ موجودہ حکومت کا ملک میں جدید نظام متعارف کروانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس نظام کو متعارف کروانے کا اہم مقصد عوام کو جدید سہولیات سے آراستہ اطلاعات اور پروگراموں تک کی رسائی ہے اور سمگل شدہ کارڈز کے غیر قانونی کاروبار کو روکنا ہے۔ یہ کارڈ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں اور بھارت کو اربوں روپے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 5لاکھ افراد غیر قانونی کارڈ کے استعمال سے مستفید ہو رہے ہیں اور بھارت کو قریباً 300ملین ڈالر کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ DTHکے نظام سے یہ تمام غیر قانونی دھندے تھم جائینگے۔ DTHکے ذریعے صارفین کو نشریات معیاری اور بہتر انداز میں پیش کی جائیں گی۔ جن کمپنیوں کو DTHکا لائسنس دیا جائے گا وہ مصنوعی سیارہ سے براہ راست سگنل وصول کر کے سگنل مائیکرو ویو اور Digital Formatمیں صارفین تک پہنچانے کی پابند ہوگی۔ مذکورہ کمپنی صارفین کو ایک آلہ مہیا کرے گی جو ٹی وی سیٹ کے ساتھ نصب کیا جائے گا جس کی وجہ سے سیٹلائیٹ کے ذریعے نشریات ٹی وی سیٹ میں ٹرانسفر ہونگی۔ سگنلز کو سیٹلائیٹ کے ذریعے ٹی وی سیٹ کے ساتھ کنوئر کو ڈش سے کیبل کے ذریعے لنک کیا جائے گا۔ ڈش کی مدد سے براہ راست سیٹلائٹ کے ذریعے تمام ٹی وی چینلز تک رسائی حاصل ہو گی۔ کیبل میں چند ایک مسائل ایسے ہیں جن کو DTHکے ذریعے دور کیا جا سکے گا۔کیبل کے ذریعے High Definition میسر نہیں آ سکتی اور سگنل کی receptionبھی کمزور ہوتی ہے جس کی وجہ سے تصویر زیادہ صاف نہیں ہوتی۔ چینلز کی تعداد بھی محدود ہوتی ہے۔
DTH ٹیکنالوجی کے تحت تمام چینلز دیکھے جا سکیں گے جو کہ کیبل کی نشریات میں شامل نہیں ہوتے۔ کیبل نشریات موسمی ا ثرات سے مبرا نہیں جونہی بارش پڑی یا تیز ہوا چلی تو تصویر دھندلا جاتی ہے یا نشریات سرے سے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح لوڈ شیڈنگ میں بھی کیبل نشریات دکھانے سے محروم رہتا ہے۔ کیبل آپریٹرز اپنی مرضی سے چینلز کو آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں یا پھر کسی چینل کو غائب بھی کر دیتے ہیں۔ DTHٹیکنالوجی کے استعمال سے تمام چینلز بلا تعطل دیکھے جا سکیں گے۔سپریم کورٹ کی مشروط اجازت کے بعد DTHلائسنز کی نیلامی تین کمپنیوں کو کر دی گئی ہے تاکہ مخصوص کمپنی کی اجارہ داری قائم نہ ہو۔ ان کمپنیوں کو DTHکا باقاعدہ آغاز سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کرنا ہو گا کیونکہ کیبل آپریٹرز DTH کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ہر کمپنی کو لائسنس کی نیلامی 4ارب 89کروڑ روپے میں ہوئی ہے جس کا 15 فیصد پہلی قسط کے طور پر 35فیصد دوسری قسط اور بقیہ 50فیصد تیسری قسط کے طور پر جمع کروانے ہونگے۔ DTHٹیکنالوجی کے انقلاب سے کیبل مافیا سے جان چھڑائی جا سکے گی جو کہ مطالبات کی منظوری تک کیبل کو فوری بند کر ڈالتے ہیں۔ DTHکے نظام پر کیبل آپریٹرز اور پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے تحفظات ہیں جن کو دور کرنے کی یقین دہانی حکومت نے کروائی ہے۔ گزشتہ دنوں اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہونیوالے اجلاس میںکیبل آپریٹرز نے اپنے مسائل سے آگاہ کیا جس پر وزیر خزانہ نے پی بی اے، کیبل آپریٹرز اور پیمرا کے چار چار ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی اور ان سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ DTHکی نیلامی کا عمل مکمل کیا جائے گا مگر کامیاب بولی دھندہ یکم نومبر 2017سے پہلے کام کا آغاز نہیں کر سکے گا۔ کیبل آپریٹرز پیمرا کو اشتہارات میں سے جو ٹیکس دیتے تھے وہ 5فیصد سے کم کر کے 2فیصد کر دیا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ وزیر خزانہ کی سفارش پر بننے والی کمیٹی کیبل آپریٹرز کے مسائل حل کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو گی۔ جدید تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کیبل آپریٹرز کو وقت کے تقاضے کے مطابق خود سے نظام کو بدلنے کی طرف توجہ دینی چاہیئے تھی۔ بجائے اسکے کہ حکومت کی طرف سے یہ دبائو ڈالنا پڑتا۔موجودہ دور میں تمام ایشیائی اور یورپی ممالک DTHنظام سے منسلک ہیں۔ ایسے میں جدید تقاضوں کے پیش نظر DTHٹیکنالوجی کا انقلاب وقت کی ضرورت اور عوامی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔