ربیع الا ول کا مہینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مسرت اور شادمانی کے احساس کے ساتھ بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے ایک سنگِ میل ثابت ہوا، اِس ماہِ مقدس میں مالکِ کائنات نے محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، احمد مجتبیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اِس دنیا میں معبوث فرمایا۔ جب اِس روئے زمین پر انسان نے لاکھوں انبیائے کرام کی تعلیما ت کو یکسر فراموش کرکے حیوانیت سے بدتر زندگی گزارنے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو ربِ کائنات جو اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے نے اپنے بندوں کو راہِ راست پر لانے اور اُن کی بخشش کا ذریعہ بنانے کیلئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رُشد و ہدایت کا منبع اور محور بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا تو چشمِ فلک نے عجیب و غریب نظارے دیکھے، حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہزاروں سال کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یوں تو تمام انبیائے کرام نے اپنے اپنے ادوار میں خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اِس دنیا میں آنے کی بشارتیں کسی نہ کسی رنگ میں دی تھیں مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتایا کہ میرے بعد ایک نبی آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا، میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ وہ پیغمبر آخرالزمان ہوں گے، دنیا میں ان کا نام محمد اور فرشتوں میں احمد ہوگا اور اُن کو اللہ تعالیٰ کتاب قرآنِ مجید دیں گے، اُن کی اُمت میں حافظِ قرآن بہت ہوں گے، دوسرے پیغمبروں کی اُمت قرآن حفظ نہ کر سکے گی اور کتابِ توریت اور انجیل کو بھی اُس زمانے میں کوئی حفظ نہ کر سکے گا، ان کی شریعت قیامت تک جاری رہے گی اور اُس وقت تک نجات نہ پا سکو گے جب تک نبی ٔ آخرالزماں کے دین پر ایمان نہ لے آئو، تب یہودیوں نے فیصلہ کیا کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام زندہ رہے تو اُن کی تبلیغ سے ہمارا دین تو ختم ہو جائے گا تو یہودیوں نے اپنے کافر بادشاہ کے ساتھ مل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا، یہودی دھوکے سے عیسیٰ علیہ السلام کو عین السلوک نامی مکان پر لے گئے مگر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے کے ذریعے عیسیٰ علیہ السلام کو اُٹھا کر آسمان پر لے گئے اور اُن کی جگہ یہودیوں کا شیوع نامی سردار جو سب سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کو مارنے کیلئے اُس مکان میں داخل ہوا تھا ،ربِ کائنات نے اُس کی شکل عیسیٰ علیہ السلام کی بنا دی تو یہودیوں نے اُسے صلیب پر لٹکا دیا، اب قربِ قیامت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا جو دین محمدی کی تلقین اور تبلیغ کریں گے۔ نبی آخرالزمان کی بعثت سے قبل سب سے بڑا واقعہ جو اہل عرب نے دیکھا وہ یمن کے بادشاہ ابرہہ کا تھا جو بیت اللہ کو (نعوذباللہ) مسمار کرنے کی نیت سے مکہ میں داخل ہوا توابا بیلوں نے خداوند کریم کے حکم سے اُس کے لشکر کا وہ حشر کیا کہ جسے قیامت تک بطور نصیحت قرآنِ کریم میں نقش کردیا گیا ہے تاکہ آئندہ کوئی بدبخت بیت اللہ کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھے کیونکہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لا چکے ہیں۔ ابرہہ کی ہلاکت کے بعد جب سیف ذی یزن ابن دوران بادشاہ بنا تو قومِ قریش کے سردار اور محافظ بیت اللہ عبدالمطلب اس کو مبارکباد دینے کیلئے گئے، جب بادشاہ کو حضرت عبدالمطلب کی آمد کی اطلاع دی گئی تو بادشاہ چونکہ توریت اور انجیل کا حافظ تھا اِس لیے اُنھیں بہت عزت و تکریم دی اور حضرت عبدالمطلب سے مخاطب ہوا کہ تمہاری قوم قریش میں ایک شخص پیدا ہوگا، اُس کی بادشاہی قیامت تک قائم رہے گی، وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہوں گے اور وہ پیغمبر آخرالزمان ہوں گے، قبلِ بلوغت اُن کے ماں باپ فوت ہو جائیں گے، دادا اور چچا اُن کی پرورش کریں گے اور اُن کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوگا اور اُن پر ایک نئی آسمانی کتاب قرآنِ مجید نازل ہوگی۔ عبدالمطلب یہ سن کر سجدہ شکر بجا لائے،بادشاہ نے پھر کہا کہ جب یہ لڑکا پیدا ہوگا تو مجھے فوراً خبر کر دینا ،حالانکہ پیغمبر خدا اُس وقت تولد ہو چکے تھے اور اُس وقت اُن کی عمر دو برس تھی مگر حضرت عبدالمطلب نے ظاہر نہ کیا اور واپس اپنے گھر مکہ آگئے، حضرت عبدالمطلب جہاندیدہ اور زیرک انسان تھے، وہ بے شمار بشارتیں دیکھ چکے تھے مگر وہ کسی پر ظاہر نہ کرتے تھے۔ محسنِ کائنات اور پیغمبر اسلام دنیا سے شرک و بدعت کو مٹانے آئے تھے اور ربِ کائنات کی واحدانیت کا درس دینے، خدا کے بندوں کو اس کی اطاعت اور بندگی سکھانے کیلئے معبوث ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش کے وقت تمام جہاں کے بت کدوں میں لرزہ طاری تھا، آتش کدہ فارس جو ایک ہزار سال سے جل رہا تھا وہ بجھ گیا، نوشیروان کے بالا خانے کے بڑے بڑے بنے ہوئے بارہ برج ٹوٹ کر زمین بوس ہوگئے، قیصر و کسریٰ سمیت شرک کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوچکا تھا کیونکہ دنیا میں خدائے بزرگ و برتر کے باغیوں کیلئے اعلانِ جنگ تھا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لا چکے ہیں، سب قانون اور دین ختم ہو چکے ہیں، یہ ہم مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ ہم نبی آخرالزمان کی اُمت ہیں، آپؐ کے آنے سے پہلے نوشیروان کی سلطنت کو بیالیس سال گزر چکے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بیتے چھ سو سال ہو چکے تھے اور زمانہ سکندر رومی کو آٹھ سو بہت برس، حضرت دائود کا زمانہ ایک ہزار آٹھ برس بعض روایات میں تین ہزار بہتر برس اور حضرت ابراہیم کا زمانہ تین ہزار آٹھ سو برس اور حضرت نوح کو چار ہزار ایک سو نو برس اور بعض روایات میں چار ہزار چار سو نو برس گزرے تھے اور حضرت آدم کو چھ ہزار ایک سو تریسٹھ برس گزرے تھے جبکہ بعض روایات میں چھ ہزار سات سو پچاس برس بھی آتے ہیں۔
ہمیں فخرہے کہ ہم اُس نبی کے اُمتی ہیں جنھوں نے اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کو انسانوں کے ساتھ رہنے کی تمیز سکھائی، امن و آشتی، اخوت و محبت کا درس دیا، حیوانیت کی زندگی سے انسانیت کی سطح پر بلند کیا، حق و باطل کی تمیز سکھائی خاتم النبینؐ کی صورت میں وہ ہادیٔ برحق تشریف لائے جن کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر دونوں جہانوں میں کامیابی واحد زینہ ہے، ان کا ایک ایک فعل ہمارے لیے مشعل راہ ہے جو تاریکی کے ہر دور میں قلب و جاں کو منور کر تا ہے اور قیامت تک کرتا رہے گا، اُنھوں نے ربِ کعبہ کی مدد اور نصرت سے 23 سالہ دورِ نبوت میں وہ انقلاب برپا کر دکھایا جس کی مثال تاریخِ انسانی میں کہیں اور نہیں مل سکتی، آپ ؐکی مکی زندگی بے شمار مصائب و مشکلات کا شکار رہی، اس ابتلاء کے دور میں بھی ہمارے لیے قدم قدم پرنصیحت ہے جس پر عمل پیرا ہو کر آج بھی ہم دنیا کا مردانہ وار مقابلہ کر سکتے ہیں، ہمیں صرف اور صرف راہنمائی اپنے نبی محترم سے لینی چاہئے تاکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہم سرخرو ہو سکیں۔
مرحبا سیّد مکی مدنی العربی
دل وجاں باد فدایت چہ عجب خوش بقی