ٹرمپ پالیسی ناکام ہوگی، حملے افغانستان سے ہورہے ہیں پاکستان میں کوئی دہشتگرد گروپ نہیں: شاہد خاقان

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ایجنسیاں+نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کیلئے جمعرات کے روز روس روانہ ہو گئے۔ تنظیم کی مکمل رکنیت کے ملنے کے بعد پاکستان کی طرف سے اجلاس میں یہ پہلی شرکت ہو گی۔ دفتر خارجہ کے مطابق اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ترقیاتی تعاون کے امکانات، حکمت عملی اور ترجیحات پر غور کیا جائیگا۔ وزیراعظم شنگھائی تعاون تنظیم میں اپنے دوسرے ہم منصبوں کے ہمراہ روس کے وزیراعظم کی جانب سے دئیے جانیوالے استقبالئے میں بھی شرکت کرینگے اور افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی کرینگے۔ اپنے خطاب میں خطہ کے امن و سلامتی اور معاشی ترقی کو دہشت گردی سے لاحق خطرات، انسداد دہشت گردی کیلئے پاکستان کی کامیاب جنگ، پاکستان کے تجربات سے استفادہ کیلئے تنظیم کے رکن ملکوں کو تعاون کی پیشکش کرنے کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اہداف کے حصول حوالے سے پاکستان کے عزم پر روشنی ڈالیں گے۔ سوچی میں قیام کے دوران ان کی روس کے وزیراعظم کے علاوہ مزید دوطرفہ ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔ ایس سی او سربراہی اجلاس 30 نومبر سے یکم دسمبر تک روس میں ہو گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم 8 ارکان پر مشتمل ہے۔ پاکستان، چین، روس، بھارت، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ ایران، افغانستان، بیلاروس اور منگولیا بطور مبصر اجلاس میں شریک ہونگے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان میں عسکریت پسند گروپوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے حوالے سے امریکی الزامات کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امریکی حکام حقانی نیٹ ورک سے متعلق کسی بھی خفیہ معلومات سے ہمیں آگاہ کریں ٗ ہم کارروائی کریںگے، افغانستان میں صدر ٹرمپ کی طرف سے فوجی دستوں کی تعداد میں اضافے اور حمایت پر مبنی پالیسی ناکامی سے دوچار ہوگی۔ غیرملکی جریدے کو انٹرویو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان نہیں افغانستان میں ہیں۔ دہشت گرد حملے بھی افغانستان سے کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں کوئی دہشت گرد گروپ نہیں ہے۔ افغانستان سے سرحد پار مداخلت روز کامعمول بن چکا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اگر ہمیں کوئی خفیہ معلومات فراہم کرتاہے تو ہم اس پر کارروائی کریں گے۔ یہ ہماری جنگ ہے ان کی نہیں۔ کوئٹہ میں برسوں سے مبینہ طور پر رہائش پذیر طالبان رہنمائوں کے خلاف پاکستان کی کارروائی کے حوالے سے وزیراعظم نے کہاکہ اگر وہ واقعی یہاں ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائیگی۔ انہوں نے افغان حکومت اور طالبان پر امن بات چیت کیلئے رضامند ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کریں، مکمل تعاون کریں گے۔ پاکستان نے دو مرتبہ کوشش کی مگر مذاکرات کو سبوتاژ کردیا گیا۔ حافظ سعید کی رہائی سے متعلق عدالتی احکامات کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ عدالت کے تین رکنی بینچ نے ان کو رہا کرتے ہوئے کہاکہ ان کے خلاف کوئی الزامات نہیں۔ اگر ان الزامات کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہے تو ان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر مقدمہ چلائیں لیکن یہ صرف الزامات ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے بھی اس سلسلہ میں کوئی شواہد نہیں دیئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا دہشت گرد گروپوں کے بلا امتیاز کارروائی کی جا رہی ہے۔ ہم نے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے اڈوں کی نشاندہی کی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ کے درمیان روس کے شہر سوچی میں ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم نے چینی ہم منصب کو پولیٹیکل بیورو میں دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ پاکستان نے چین کو اہم معاملات بشمول ون چائنہ پر حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنمائوں نے دوطرفہ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا اور شنگھائی تعاون تنظیم میں قریبی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ سیاسی‘ معاشی‘ تجارتی‘ دفاعی اور سٹرٹیجک شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن