اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے…

عدالتِ عالیہ کے حکم سے کراچی میں ناجائز تجاوزات ختم کرنے کی جو مہم شروع ہوئی تھی وہ ہنوز جاری ہے۔کمشنر کراچی نے کہا ہے کہ تجاوزات کے خلاف مہم جاری رہے گی۔ ٹی وی چینلوں پر مباحث اور اُن کی خبروں میں لوگ عجیب عجیب اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں جیسے ’’ نا جائز تجاوزات ‘‘ ۔بھلا یہ نا جائز تجاوزات کیا بات ہوئی؟ کیا کوئی ’’ جائز تجاوزات ‘‘ بھی ہوتی ہیں؟کمشنر کراچی نے یہ بھی کہا کہ تمام غیر قانونی تعمیرات گرا دی جائیں گی۔جے یو آئی کے صوبائی نائب امیر قاری عثمان کا کہنا ہے کہ ’ ناجائز تجاوزات ‘ کی آڑ میں کراچی کے چھوٹے دُکان داروں کا معاشی قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔1957 اور 1969 سے بنائی گئی مارکیٹوں کو توڑ کر ہزاروں افراد کو بے روز گار کیا جا رہا ہے۔اس کے ذمہ دار میئرکراچی اور حکومتِ سندھ ہے۔اُدھر ایمپریس مارکیٹ کے جنرل سیکریٹری اور چیئرمین کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی۔ جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر کا کہنا ہے : ’’ عدالتِ عالیہ کے حکم پر چلائی جانے والی انسداد تجاوزات مہم غلط رُخ پر موڑ دی گئی ہے۔ہزاروں لوگوں کے کاروبار ، روزگار اور قدیمی دُکانوں سے محرومی سے سنگین صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔اس کے لئے شہری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ایک ’ شہری ایکشن کمیٹی ‘ بنائی ہے‘‘۔ امیرِ موصوف کا یہ بھی کہنا ہے : ’ ’ جس طرح عدالتِ عالیہ نے وزیرِ اعظم پاکستان کی ذاتی تعمیرات واقع بنی گالہ کوجُرمانہ لے کر ’ باقاعدہ ‘ ریگولرائزکر نے کی سہولت اور مہلت دی ہے، اُسی طرح سے متاثرین کا بھی مسئلہ حل کیا جائے‘‘۔حالیہ جاری آپریشن تین مرحلوں میں کیا جا رہا ہے: پہلے میں فُٹ پاتھوں سے تجاوزات ہٹانا۔ دوسرا دُکانوں سے لگی ہوئی تجاوزات گرانا اور تیسرا ایمپریس مارکیٹ ، صدر کو اپنی اصلی حالت میں واپس لانا۔اس حکمتِ عملی پر عمل کرتے ہوئے انسداد تجاوزات کے منصوبے کے مطابق ایمپریس مارکیٹ، ریگل چوک، الیکٹرانک مارکیٹ پریڈی اسٹریٹ سے پتھارے ہٹائے گئے،غیر قانونی دُکانیں گرائی گئیں ،سائن بورڈ اور شیڈ اُتارے گئے ۔نگران آپریشن، میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان کا کہنا ہے : ’’ شہر کا نقشہ تجاوزات کے خاتمے سے ہی بدلا جا سکتا ہے۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی قسم کا احتجاج ، آپریشن نہیں روک سکتا۔ پورے شہر میں بلا امتیاز کاروائی جاری رہے گی‘‘۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف دُکانیں اور اخبارات کے اسٹال والوں نے اِس ایکشن کے خلاف یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ وہ لوگ 50 سالوں سے بلدیہ کراچی اور ’ دیگر اداروں ‘ کو لاکھوں روپے دے رہے ہیں پھر بھی دُکانیں گرا دی گئیں۔انہوں نے متبادِل جگہ کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا۔یہ بھی خوب رہی!! اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے… پہلے تو آپ خلافِ قانون کوئی کام کریں، خواہ دھونس دھاندلی یا پیسے کے زور سے۔پھر جب کبھی ’ قوانین ‘ کے نفاذ کی کوشش کی جائے تو بے خوف ہو کر یہ دہائی دی جائے کہ ہم پر تو بڑا ظلم ہو گیا، ہم تو یہاں پچاس سال سے بیٹھے ہوئے تھے۔آپ خواہ 60 سال سے بیٹھے ہوں۔ناجائز قبضہ جائز کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ قانونی، اخلاقی اور شرعی کسی بھی لحاظ سے ،ناجائز طور پر کہیں بیٹھنے سے وہ جگہ آپ کی نہیں ہو سکتی، خواہ سالوں سال آپ ناجائز قابض رہے ہوں۔ میئر کراچی وسیم اختر کا موقف ہے : ’’ماضی کی غلطیاں ہم نہیں دہرائیں گے۔بلدیہ نے جو علاقے کرائے پر دے رکھے تھے اُن سب کا کنٹریکٹ اب ختم کر دیا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم عدالتِ عالیہ کے حکم کو نافذ کر رہے ہیں۔ آپریشن سے جو لوگ بے روزگار ہوئے ہیں انہیں متبادل مارکیٹ میں جگہ دی جائے گی۔کراچی کو تجاوزات سے پاک کرنے کا یہ انتہائی موزوں وقت ہے۔ سرکاری محکموں کے متعلقہ شعبہ جات میں ’ شارٹ کٹ ‘ چل رہے ہیں۔ جہاں دو منزلہ مکان کی منظوری تھی اُسی پلاٹ پر کثیر المنزلہ عمارت تعمیر ہو جاتی ہے ۔ جہاں چھ چھ خاندان رہتے ہیں۔پھر نالوں پر تعمیرات، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ٹھیلوں کا کھڑا ہونا اپنے ساتھ کئی ایک مسائل لا چکا ہے۔یہی وقت ہے کہ حکومت اور بلدیہ طاقت سے اپنی رِٹ نافذ کرے۔تجاوزات کی مہم کو جو لوگ ظلم سمجھ کر پیش کر رہے ہیں وہ خود عوام پر ظلم کر رہے ہیں۔ ماضی قریب اور ماضی بعید میں کئی مرتبہ پتھارے اور ٹھیلے والوں کو کسی جگہ سے اُٹھا کرمتبادل جگہیں اور کیبن فراہم کیئے تو یہ ’ متاثرہ ‘ لوگ ،فراہم کردہ کیبن کرایے پر چڑھا کر دوبارہ پرانی جگہ پر آ گئے۔ یہی کام نالوں کے کنارے غیر قانونی آبادیوں کے مکین بھی کرتے ہیں۔ بہرحال اب پھر بلدیہ متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کی جا رہی ہے۔ وقت بتائے گا کہ بات جب تجاوزات کی ہوتی ہے تو صرف مارکیٹوں کو ہی نظر میں رکھا جاتا ہے۔کیا کچی آبادیاں تجاوزات میں شامل نہیں؟ کیا تفریحی پارک اور کھیل کے میدانوں پر قبضے غیر قانونی نہیں؟ پھر ان کچی آبادیوں میں بجلی اور گیس بھی موجود ہے۔کیا یہ آبادیاں ’’ رجسٹرڈ ‘‘ ہیں؟ اگر یہ قانونی کالونیاں ہیں تو پھر انہیں کچی آبادی کا نام کیوں دیا گیا ؟اس پر مستزاد ایک نظامتِ کچی آبادی بھی قائم ہے۔یعنی سرکاری طور پر ’’ کچی آبادی ‘‘ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔کیا اس محکمے کا کام یہ ہے کہ وہ جائزہ لیتا رہے کہ کہاں کہاں کچی آبادیاں ہیں؟ جب یہ آبادیاں پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں اور اس کے مکیں بجلی گیس کے کنکشن حاصل کر رہے ہوتے ہیں اُس وقت انہیں روکنے والے کہاں ہوتے ہیں؟یہ ہی تو ہمارا المیہ ہے کہ قانونی طور بجلی اور گیس کنکشن حاصل کرنے والوں کو مہینوں بعد کی تاریخ ملتی ہے۔بلکہ اکثر تو مکان کی تعمیر سے پہلے ہی گیس کی درخواست دے دیتے ہیں اور مکان مکمل ہونے کے بعد کہیں جا کر گیس کنکشن ملتا ہے اور کچی آبادی والے؟ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ خود سرکاری محکموں کے متعلقہ شعبہ جات میں کھُلے عام ــ’’ چائے پانی‘‘ کا خرچہ چلتا ہے۔اس ساری صورتِ حال میں عدالتی حکم گرم لُو میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے رِٹ نافذ کرنے والے ادارے بلا تخصیص ہر ایک تجاوزات پر اِسے نافذ کریں ۔ہم پہلے بھی اپنے کالموں میں ذکر کر چکے ہیںکہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی قانون کا نفاذ ہے جو ڈنڈے کے زور پر ہے اور یہ ڈنڈا ہر خاص و عام لے لئے برابر ہے۔

ای پیپر دی نیشن