اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں العزیز یہ ہل میٹل ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت نے پراسیکیوٹر کے دلائل پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو وضاحت دینے سے روک دیا،پراسیکیوٹر واثق ملک نے حتمی دلائل میں کہاکہ ورک شیٹ صرف منی ٹریل کے خلا کو پر کرنے کیلئے تیار کی گئی،العزیزیہ اسٹیل کے قیام کی دستاویزات پیش کرنے کی بنیادی ذمہ داری ملزمان پر تھی، نواز شریف روسٹرم پر آ کر بولے 1973میں جب دبئی میں گلف سٹیل مل لگائی اس کا منی ٹریل کسی نے نہیں پوچھا، آگے بڑھنے سے پہلے جائزہ لیں کہ ریفرنس کا سر پیر ہے یا نہیں،جج ارشد ملک نے استفسار کیا وکیل صفائی کو ان سوالات کے جواب دینا ہوں گے کہ بطور وزیراعظم نوازشریف کا حق بنتا تھا کہ وہ بچوں سے پوچھتے کہ اتنی جائیداد کہاں سے آئی، ایک عام بندہ یہ سب کرے تو الگ بات ہے لیکن یہ تو ملک کے وزیراعظم تھے ،کیا میاں شریف کے اکاﺅنٹس سے العزیزیہ کے قیام کیلئے کوئی چیز ریکارڈ پر ہے ؟کیا ہل میٹل سے بھی رقوم براہ راست نواز شریف کو آتی رہیں ؟ پراسکیوٹر نے جواب دیاایسی کوئی بھی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے ، ہل میٹل سے بھی نواز شریف کو رقوم آئیں،ہمارا کیس یہ ہے کہ یہ اثاثے بنے کیسے ؟جمعہ کواحتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کیس کی سماعت کی، سابق وزیراعظم نواز شریف بھی عدالت میں پیش ہوئے، نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے دوسرے روز دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا قطری شہزادے نے پاکستان کی عدالتوں میں پیش ہوکر گواہی دینے سے انکار کیا ، نواز شریف بولے ،بات ایسے نہیں جس انداز میں یہ پیش کر رہے ہیں ،میں اس پر وضاحت کرنا چاہتا ہوں ، جج ارشد ملک نے کہاکہ پراسیکیوشن کے دلائل کے بعد آپ کے وکیل دلائل دیں گے،خواجہ حارث کے دلائل کے بعد ضرورت ہوئی تو آپ کو سن لیں گے ، پراسیکیوٹر نیب نے دلائل میں مزید کہا ایم ایل اے کے جواب کو ایک طرف رکھ دیں تو بھی ملزمان کے بیان میں کئی تضادات موجود ہیں ،حسین نواز کے انٹرویوز اور سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے موقف میں بھی تضاد ہے ، انٹرویو میں کہتے رہے کہ ہم نے سعودی بینکوں سے قرض لے کر العزیزیہ قائم کی ،العزیزیہ کے قیام کیلئے لیے گئے کسی قرض کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں،قطری خط کے ساتھ پیش کی گئی ورک شیٹ کا کوئی سپورٹنگ ریکارڈ نہیں،ورک شیٹ صرف منی ٹریل کے خلا کو پر کرنے کیلئے تیار کی گئی،پراسیکیوٹر نے مزید کہا العزیزیہ اسٹیل کے قیام کی دستاویزات پیش کرنے کی بنیادی ذمہ داری ملزمان پر تھی،ملزمان کی ذمہ داری اس لئے تھی کیونکہ یہ ان کا اپنا ریکارڈ ہے ،ہم نے ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب کو ایم ایل اے لکھا ، تمام تر کوششوں کے باوجود سعودی عرب کی طرف سے ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا ،ملزمان نے 1970کا ریکارڈ فراہم کیا لیکن 2001کا نہیں دے رہے ، یہ عجیب سی بات ہے کہ دادا کے زمانے کا ریکارڈ دے رہے ہیں لیکن اپنے زمانے کا نہیں دیتے ،العزیزیہ کی فروخت کے بعد اثاثوں کی تقسیم کی ایک دستاویز بنا کر دی گئی ،نیب پراسیکیوٹر کے دلائل کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف پھر روسٹرم پر آگئے اور بولے یہ منی ٹریل کا پوچھتے ہیں ، پہلے ان سے پوچھیں کہ مقدمے کا سر پیر ہے یا نہیں ،منی ٹریل تو 1973سے شروع ہوتا ہے ،بیرون ملک تو کئی لوگوں بچے کام کرتے ہیں ،یہ اعزاز کی بات ہوتی ہے ،باہر بیٹے نوکریاں کریں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے باپ نے نوکری لے کر دی ،جج احتساب عدالت بولے منی ٹریل تو آپ سے پوچھیں گے ، نواز شریف نے پھر کہا یہ اسوقت کی بات ہے جب دبئی میں گلف اسٹیل مل لگائی گئی،اسکا تو کسی نے منی ٹریل نہیں پوچھا،اس اثاثے کے بعد دوسرے اثاثے بیرون ملک بنائے گئے، آپ آگے بڑھنے سے پہلے ریفرنس کا جائزہ لیں کہ اس ریفرنس کا سر پیر بھی ہے کہ نہیں،باپ کو پیسے دینا بیٹے کے لیے اعزاز ہے،کیا پیسے بھیجنے سے ثابت ہوتا ہے کہ میں مالک ہوں، یہ میرے مالک ہونے کا ثبوت تو دیں، ان کے پاس ثبوت ہوتا تو دیتے، جج محمد ارشد ملک نے استفسار کیاآپ لوگ صرف 1980والے 12ملین درہم پر ہی انحصار کر رہے ہیں، ان 12ملین ڈالر سے 17لاکھ ڈالر بھی نکلے 8ہزار ڈالر بھی نکلے اور العزیزیہ بھی نکلی۔ نیب پراسیکوٹر نے کہا اس بات سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اثاثہ ان کا ہے ،حسن اور حسین نواز جان بوجھ کر حقائق چھپانے کیلئے مفرور ہوئے، جج ارشد ملک نے کہاآپ یہ کہتے ہیں کہ بیٹوں کو والد کو ریسکیو کرنے کیلئے آنا چائیے تھا وہ جان بوجھ کر فرار ہوئے، پراسیکیوٹر نے کہاحسن اور حسین نواز کی دستاویزات کو اب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، جج ارشد ملک نے استفسار کیا حسین نواز کو خود کفیل ظاہر کیوں نہیں کیا گیا ؟ حسین نواز دادا سے پیسے کیوں لیتا رہا ہے ؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیاحسین نواز شروع سے ہی زیر کفالت ہیں ،ان کے پاس اپنا کچھ نہیں تھا،نواز شریف کے وکیل زبیر خالد نے کہاحال ہی میں ایک جوتے پالش کرنے والے بچے نے ٹاپ کیا ، ایک خود کفیل بچہ کام کرکے بھی کامیاب ہو سکتا ہے،جج ارشد ملک نے کہاانہی لوگوں کی وجہ سے تو یہ ہے کہ وہ جوتے پالش کرکے پڑھ رہا ہے اور یہاں دیکھ لیں ،بطور وزیراعظم نوازشریف کا حق بنتا تھا کہ وہ بچوں سے پوچھتے کہ اتنی جائیداد کہاں سے آئی، ایک عام بندہ یہ سب کرے تو الگ بات ہے لیکن یہ تو ملک کے وزیراعظم تھے ، جج نے نوازشریف کے وکیل کو ہدایت کی کہ ساری بات ذہن نشین کرلیں آپ نے ان کے جواب دینے ہیں ،وکیل نے جواب دیا نوازشریف جدی پشتی امیر تھے ،پہلی دو میں سے ایک مرسیڈیز ان کے پاس تھی، جج ارشد ملک نے کہاویسے کمال ہے کہ2001کے گوشواروں میں نوازشریف نے ایک گاڑی بھی ظاہر نہیں کی، جج نے استفسار کیا مس اسما نواز کون ہے، یہ بھی ان کی بیٹی ہے ؟پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ اسما نواز، نوازشریف کی بیٹی اور اسحاق ڈار صاحب کی بہو ہے، جج ارشد ملک نے کہامیں سمجھ رہا تھا کہ کوئی رشتہ دار ہے،اس کے نام پر کچھ نہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا اسما علی ڈار کے نام پر کچھ نہیں سامنے آیا۔
نواز شریف/ ریفرنس