اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان/ تجزیہ) نئی حکومت میں بھی پرانے موروثی حکومتی طرز عمل سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نالاں نظر آئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے معاملے کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس نے اچانک تمام مقدمات کی سماعت روک دی اور نشست سے اٹھنے لگے، اسی لمحہ میں انہوں نے استفسارکیاکہ صبح گیارہ بجے علیمہ خان کے اثاثوں ، ایمنسٹی سکیم کی فائل منگوائی تھی اب تین بج رہے ہیں وہ فائل کہاں ہے؟ کیا فائل آگئی ہے؟ ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ فائل لاہور سے آنا تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا فائل کو روک دیںکل (ہفتہ) کو لاہو رجسٹری میں پیش کریں اسکی سماعت وہاں ہی کریں گے۔ کچی آبادی کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے کیس پراگرس کے حوالے سے استفسار کیا اور کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نیئر رضوی کہاں ہیں؟ دوسرے لاء آفسر نے عدالت کو بتایا گیا کہ ان کو ڈی نوٹی فائی کردیا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ان کو ہٹانے کی سمری کس کی ایما پر تیار ہوئی یقینا وزیر اعظم اس عمل سے لاعلم ہوں گے یہ سب بیورو کریسی کا چکر ہے۔ واضح رہے نیئر رضوی عدالتی احکامات کی بجاآوری میں بڑے متحرک تھے ، تجاوزات کے خلاف آپریشن، جعلی اکائونٹس، منی لانڈرنگ ، کچی آبادی، سی ڈی اے ایگرو فارمز، میں ذاتی دلچسپی سے بہت اوٹ پٹ دے رہے تھے یہی وجوہات تھیں کہ وہ چیف جسٹس کے ڈیم فنڈ ریزنگ کے برطانیہ کے دورے میں ساتھ ساتھ تھے، چیف جسٹس کا صرف علیمہ خان کے اثاثوں ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے استفسار اورریکارڈ فائل آج طلب کرنا معمول کی بات نہیں ، جبکہ باقی جعلی کائونٹس کیس کی سماعت آئندہ ہفتے ہو گی چیف جسٹس فائل دیکھ کر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ علیمہ خان کو قانون سے ہٹ کر تو رعایت نہیں دی گئی۔