'بھارتی زیرکنٹرول کشمیر' کیااپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہورہا ہے؟ ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے؟ کیونکہ بین الااقوامی سطح پر اِس امر کا احساس پوری توانائی اور شدت سے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کسی حد تک کافی کامیاب ہوچکا ہے ذرا سوچئیے ! یہ انسانی زندگیاں کیا کوئی کھیل تماشا ہوتی ہیں جناب ِ والہ! انسانی زندگیوں کی نعم البدل کوئی شے نہیں ہوسکتی 'جتنی بے توقیری اورجس قدر بیدردی کے ساتھ آج کل مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج کشمیریوں کی لاشوں پر لاشیں گرارہی ہیں، انسانی عظمت وتوقیر کی تذلیل اگر فی زمانہ اپنی نگاہوں سے کوئی دیکھنا چاہے تو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی خونریزیوں کے ہولناک مناظر سے بخوبی وہ اندازہ لگا سکتا ہے ،کشمیر میں انسانی حقوق کا اور حق خود ارادیت کا جائز مطالبہ کرنے والوں پرکیسی ہولناک قیامتیں ڈھائی جارہی ہیں اب کوئی نئی دہلی والوں سے پوچھے کہ اُس کی سیکورٹی فورسنزاہل کشمیر پر اور کتنے مظالم ڈھا سکتی ہیںاپنا ستم رسیدہ ’کریک ڈاون' اور کتنے عرصہ جاری رکھ سکتی ہیں اپنے جبر وستم سے اپنے جدیدہتھیاروں سے کب تک کشمیریوں کو لہو میں نہلا یا جائے گا ‘کشمیری کسی حالت میں انڈیا کے سامنے اپنے آپ کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے ،نئی دہلی کے کالے اور فرسودہ قوانین کشمیریوں نے کل تسلیم کیئے نہ آج وہ اِن بھارتی قوانین کو ماننے کے لئے تیار ہیں، حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی گورنر نے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو برطرف کیا ریاست کی اسمبلی کو تحلیل کردیا اہل کشمیر جانتے ہیں دنیا بھی باخبر ہے نئی دہلی کے اشارے پر ریاستی گورنر کے نوآبادیا تی اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ نئی دہلی کی مودی انتظامیہ اگلے برس کے چناؤ میں جموں و کشمیر میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کاارادہ رکھتی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ بھارتی ایماء ومرضی کے مطابق ہی مقبوضہ کشمیر میں حالات کارخ طے ہو،ایسا کبھی نہیں ہوتا خاص طور پر وہاں جہاں غاصب قوتیں مغلوب اقوام کے بنیادی حقوق سلب رکھیں اْن پر عرصہ حیات ہی تنگ کردیں مغلوب قوم پر اظہاررائے کی پابندیاں عائد کردی جائیں اْنہیں اپنے ہی بنائے ہوئے غاصبانہ قوانین کے مبینہ ردوبدل کے خوف میں مبتلا رکھا جائے مقبوضہ وادی میں محبوبہ مفتی کی اتحادی کٹھ پتلی حکومت اور ریاستی اسمبلی کوگھر بھیج کر کشمیری قوم کو مزید ڈرایا نہیں جاسکتا ،تقسیم ہند کے بعد جب سے بھارتی فو ج نے کشمیرکی سرزمین پر اپنے ناپاک قدم رکھے اور وہاں پر نئی دہلی نے جمہوریت کا نام نہاد جو کھیل رچایاہے اہل کشمیر نے اس کھیل میں کبھی کوئی دلچسپی لی نہ آج اْنہیں دلچسپی ہے لیکن ایک بات اہم وہ یہ ہے کہ کشمیریوں کے کان کھڑے ہوگئے ہیں'بھارتی سینئر سیاسی دانشور ببانگ دہل یہ کہنے اور ماننے پر اترآئے ہیں کہ بی جے پی کا حکومتی جنونی ونگ 'کشمیر کے 'عالمی اسٹیٹس کو ‘ کے درپے ہوگیا ہے مودی سرکار کشمیر کی خصوصیت اہمیت کو ختم کرکے مقبوضہ وادی کی مسلم اکثریت کو اُن کی ملی و ثقافتی شناخت کو کالعدم کرنے کے نعرے لگارہی ہے مثلاً کشمیری ریاست کے رہائشی سکونت کے قانون میں ردوبدل کرنے کے لئے نئے سرے سے پَر تولے جارہے ہیں اؤل تو یہ کہ مئی1954 میں غیر اخلاقی وغیر آئینی اقدامات کیئے گئے تھے اُس وقت ایک صدارتی فرمان کا سہارا لیا گیااور 1927 میں کشمیر میں نافذالعمل قوانین میں جو تبدیلیاں کی گئیں وہ کشمیر ی عوام کے بنیادی حقوق پر اُسی زمانہ میں ڈکیتی کی واردات تھی، جس کے نتیجہ میں 1954 مئی میں آرٹیکل 37-A کا نفاذ ہوا کشمیریوں کو کل بھی اس آرٹیکل پر بڑے تحفطات تھے لیکن کشمیریوں کے بہت سے حقوق غصب ہونے کے باوجو د’یکطرفہ صدارتی فرمان کے اس متنازعہ آرٹیکل‘کو وقتی طورپر کشمیریوں نے مان لیا مگر فی زمانہ آرایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی آرٹیکل35-A کی شقوں کو مزید نرم کر کے کشمیر پر بھارتی دولت مندہندوپنڈتوں کو آباد کرنا چاہ رہی ہے لیکن اب 35-A کے ساتھ کسی چھیڑ چھاڑ کو کشمیری قبول نہیں کریں گئے، مقبوضہ وادی کی ’ ریاستی اسمبلی‘کو توڑ کروادی میں گورنرراج کے قیام پر اب تو وہ کشمیری رہنما بھی نئی دہلی کے فیصلے سے سخت ناراض ہیں نئی دہلی کو ’وارننگ‘ کوطور متنبہ کررہے ہیں کہ آرایس ایس نے کھل کر دیش کی سیاست کو مذہبی تعصب کی فرقہ واریت سے آلودہ کرکے دیش کے سماجی وثقافتی اتحاد کو پہلے سے بہت زیادہ نقصان پہنچادیا ہے لہذاء ریاست کشمیر کی خصوصی اہمیت کے اہم قانون کو بدلنے جیسی احمقانہ باتیں نہ کی جائیں خطہ کا یہ اہم انسانی تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں حل طلب ہے، کئی دہائیاں گزرگئیں، مگر بھارت اور اْس کی حلیف عالمی طاقتوں نے اس خطہ کے اس اہم انسانی ایشو کو سلگتی ہوئی بھٹی کی نظرکردیا ہے یوں مسئلہ کشمیرسلگتا ہوا آتشیں مسئلہ بن چکا ہے بھارتی آئین میں آرٹیکل 53-A اور اِس سے وابستہ آرٹیکلز کی رُوسے نہ تو کوئی عام بھارتی فرد کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے جائیداد خرید نہیں سکتا تو اُسے کشمیر میں ووٹنگ کا حق بھی حاصل نہیں ہوسکتا یہ قانون پاکستانی آزاد جموں وکشمیر میں بھی لاگو ہے ایسی صورت میں آرایس ایس کا یہ مذموم اور ناقابل عمل منصوبہ کاغذوں پر ہی سمجھا جائے آرایس ایس ہو یا بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کی واضح اکثریت کو اقلیت میں بدلا نہیں جاسکتا زمینی حقائق پتھروں پر لکھی تحریریں ہیں افسوس! بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' ہو یابی جے پی کی 'فادرتھنک ٹینک تنظیم آرایس ایس' یہ مسلمانوں کی اجتماعی ہیت فکری کی ایمان افروز جہتوں کو سمجھنے میں ہمیشہ کوتاہ نظر ہی رہے ہیں کیا اِنہیں پتہ نہیں ہے کل 'قیام پاکستان کی تحریک جب زوروں پر تھی بانیان پاکستان اپنی جگہ سے ایک لمحہ پیچھے نہیں ہٹے، قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ’آر ایس ایس ‘ اوربھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی متواتر'پے درپے اور مسلسل ناکامیوں یعنی ان کے مذموم عزائم اور مذموم مقاصد کی کیسی مٹی پلید ہوئی یہ نکتہ اُن کی سمجھ میں سماتا نہیں کہ جب کوئی مسلما ن اپنے دل ونگاہ میں کسی ارفع واعلی مقصد تک پہنچنے کا قصد کرلیتا ہے ارادہ کرلیتا ہے توایسے ہر مسلمان کے لئے اْس کا مقصد‘اس کا ارادہ 'حق' تک پہنچنے کا راستہ بن جاتا ہے مثلا ً بات کشمیر اور اہل کشمیر کی ہورہی ہے یہیں تک محدود رہتے ہوئے ہم کہنا چاہئیں گے اگر کل مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کو مطلوبہ نشستیں نہیں ملی تھیں تو نئی دہلی سرکار نے خود یہ کیسے سمجھ لیا وہ اچانک سے کٹھ پتلی ریاست کی کٹھ پتلی اسمبلی کو توڑ دے کیونکہ دیش کے عام چناؤ اگلے برس ہونگے لہذاء اگلے برس کے عام چناؤ میں مودی کے اْن کے چیلوں کے خیال میں بی جے پی کو دوتہائی اکثریت مل جائے گی؟ کیسی دورکی کوڑی لائی گئی کہ ’کیا مقبوضہ وادی کے عام چناؤ کشمیر کی وادی میں نہیں ہونگے؟ کشمیر کی بجائے سینٹرل انڈیا میں کشمیر کے نام پر بھارتی ہندو ووٹنگ کریں گے؟ دیوانوں کا یہ وہ خواب ہے جوآر ایس ایس والے یا پھر 'را' کے ایجنٹس دن کی روشنیوں میں دیکھنے لگے ہیں ۔
کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو لاحق خطرات
Dec 01, 2018