ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمنٰ نے بڑی اہم بات کی۔ ڈاکٹر ساجد اس وقت ممبر اسلامی نظریاتی کونسل ہیں جبکہ سابق نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کاکہنا تھا کہ لوگ پیارے نبیؐ کے نام پر جان دینے کو تو تیار ہو جاتے ہیں مگر سیرت طیبہ پر عمل نہیں کرتے۔ دراصل ہمارے اندر جو شدت پسندی در آئی ہے اور ہم زیادہ تر لوگوں کو گناہ گار قرار دیتے ہیں تو یہ سیرت پاک کے روشن پہلوؤں کو اپنی عملی زندگی میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے ہی ہے۔ ڈاکٹر ساجد کی جس بات کا تذکرہ میں کر رہی ہوں یہ بات انہوں نے ایک معطر محفل میں کہی جو کہ حمد و نعت و درود و سلام پر مبنی تھی جس کا پہلا حصہ نعت خوانی اور دوسرا نعتیہ محفل مشاعرہ پر مبنی تھا اور یہ محفل ڈاکٹر عزیز ہاشمی کے دولت کدے پر منعقد ہوئی تھی اور اس محفل میں چیدہ شخصیات کا اکٹھا تھا۔ ڈاکٹر عزیز ہاشمی بہاولپور ، سرگودھا اور راولپنڈی بورڈ کے چیئرمین بھی رہے ہیں ۔ ڈاکٹر عزیز ہاشمی کی قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری سے خصوصی رفاقت تھی اسی لئے انہوں نے جب کتاب ’’حفیظ بنام عزیز‘‘ شائع ہوئی تو اس کی تقریب پذیرائی کے وقت ’قومی ترانہ فاؤنڈیشن‘ کے قیام کا اعلان کر دیا تھا۔ اور پچھلے پچیس برس سے یہ فاؤنڈیشن کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر عزیز ہاشمی کو تجویز دی ہے کہ اتنی اہم فاؤنڈیشن میں نوجوانوں کو شامل کریں اور باقاعدہ اجلاس منعقد کرنے کا اہتمام کیا کریں۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ماضی میں بڑی بڑی تحریکوں کو بھی جوش جذبے اور اخلاص کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کمروں میں سے نکال کر خوشبو کی طرح پھیلا دیا گیا تھا ورنہ تو آجکل بڑے بڑے دفاتر تو موجود ہیں لیکن متحرک انداز یا بڑے پیغامات نظر نہیں آتے۔ ڈاکٹر عزیز ہاشمی ہر برس عید میلاد ؐ کے مہینے میں اپنے گھر میں ’محفل میلاد‘ اور مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس تقریب کا آغاز بھی مولانا اقرار حیدر کی تلاوت سے ہوا۔ عابد رؤف اور محمد داؤد نے نعتوں کے گلاب پیش کئے اور پھر مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ میزبان کے ساتھ کرنل جمیل اطہر‘ قیوم طاہر‘ منصور عاقل اور لیجنڈ شاعر مرتضیٰ برلاس نے کلام سنایا۔ منصور عاقل بھی اسلام آباد کی ایسی اہم شخصیت ہیں کہ جنہوں نے بحیثیت بیوروکریٹ خدمات کے دوران ہی نیک نامی کمائی اور اب معروف رسالہ ’الاقربائ‘ مسلسل نکال رہے ہیں اور اس جہد مسلسل میں کتنی محنت کرنا پڑتی ہے یہ بات وہی سمجھ سکتے ہیں جو اردو زبان اور شعر و ادب اور پھر تخلیق کاروں کے ساتھ پورے خلوص کے ساتھ وابستہ ہیں اور جو ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ جناب مرتضیٰ برلاس نے آخر میں اپنا کلام سنایا اور بحیثیت بیورو کریٹ ان کا نام بھی عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے اور ان کا شمار بھی ایسے افسران میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے تمام عمر ایمانداری کے ساتھ بسر کی اور مراعات یافتہ طبقے سے ان کا تعلق نہیں رہا لہذا درویشی کی زندگی گزار کر خوش و خرم ہیں اور ماشاء اﷲ اسّی کا ہندسہ کراس کر جانے کے بعد بھی ایسے دبنگ لہجے میں اشعار پڑھتے ہیں کہ سماں بندھ جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ان کو عمر خضر عطا کرے۔آمین آج کل وہ لاہور چھوڑ کر راولپنڈی میں مقیم ہو چکے ہیں۔
مرتضیٰ برلاس نے نعت کے حوالے سے جو شعر بنائے ان میں چند اشعار ملاحظہ کیجیئے۔
باوضو اس واسطے ہوتا ہوں میں پڑھ کر درود
خواب ہی میں کاش ہو جائے زیارت آپؐ کی
زندگی کے آخری دم تک ادا کرتا رہوں
خدمت مخلوقِ کُل جو کہ ہے سنت آپؐ کی
اور یہی وہ پیغام ہے جو کہ ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمنٰ نے دیا تھا۔ ان اشعار میں واضع ہے کہ ’’خدمت مخلوق‘‘ کا تعلق بھی نبی پاک ؐ کی سیرت کے ساتھ کتنا گہرا ہے۔ مذہب کو محض مذہبی رسومات کی ادائیگی تک محدود کر دینا بدقسمتی ہے۔ یہ پریکٹس روزمرہ کی زندگی میں نظر آنی چاہئے۔ ڈاکٹر عزیز ہاشمی کے گھر جن دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی ان میں محمد داؤد سابق جوائنٹ سیکرٹری وزارت تعلیم‘ جنرل وقار احمد خان جو کہ قومی ترانہ فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین بھی ہیں ان کے ساتھ میجر جنرل آصف دریز اختر‘ ڈاکٹر تنویر ظفر چیئرمین پنڈی اور پھر جج احتساب کورٹ اسلام آباد محمد ارشد ملک بھی شریک محفل تھے۔ آج کل ملک میں احتساب کا چرچا ہے دل تو چاہتا تھا کہ جج صاحب سے معلومات حاصل کی جائیں کہ احتساب کا اگلا مرحلہ کیا ہو گا؟ اور کیا یہ محض تفتیش یا بیانات تک رہے گا یا کہ اتنے ثبوت مل جائیں گے کہ جرم کرنے والوں کو سزائیں دی جا سکیں گی۔ اور پھر باہر سے پیسہ واپس لانا بہت بڑی کامیابی ہو گی اور کیا ایسا ممکن ہو بھی سکے گا کہ نہیں۔ کیونکہ یہ سوالات ایک عام آدمی کے ذہن میں بھی ابھر رہے ہیں۔ لیکن ارشد ملک سے ان موضوعات پر گفتگو کا موقع نہ مل سکا اور پھر تقریب کے اختتام پر لنچ کے دوران ہی سب ادھر ادھر ہو گئے۔ تقریب میں مرتضیٰ برلاس پر مرتب کی گئی کتاب ’لعل و گوہر‘ کا بھی چرچا رہا جو کہ خوش قسمتی سے دو دن بعد ہی نہ صرف ہمارے ہاتھ لگ گئی بلکہ خوش قسمتی سے اس کا انتساب محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کے نام ہے لہذا مرتضے برلاس کی رفاقت میں ڈاکٹر قدیر خان کو کتاب پیش کرنے کی سعادت میں مجھے بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس کتاب کے محرکین اشاعت میں عباس تابش اور میرا نام بھی شامل ہے اور دراصل یہ ہمارے سب کے اصرار پر ہی مرتب کی گئی ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان سے میری اس سے پہلے دو ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ پہلی ملاقات نوائے وقت کے مشہور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی کے ساتھ ہوئی تھی جس میں افسانہ نگار سعید اختر ملک بھی شامل تھے۔ جنہوں نے فرط محبت میں ڈاکٹر قدیر خان کے ہاتھ چومے تھے۔ میری شاعری کی کتاب ’سخن آس کے ستارے ہیں‘ میں ڈاکٹر قدیر خان کے لئے نظم شامل ہے ۔ کالم میں جن خوبصورت لمحات کا آغاز ڈاکٹر عزیز ہاشمی کے ذکر خیر اور ان کے گھر کی محفل سے ہوا تھا وہاں اختتام ڈاکٹر قدیر خان کے ذکر عظیم ان کے گھر کے ذکر پر ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ احسان فراموشی میں ہم ڈاکٹر قدیر کی عظمتوں کو بھول جائیں ڈاکٹر قدیر سے تجدید وفا کے لئے نظم بھی پیش ہے جس کا عنوان ہے ’’سلام کہنا‘‘
سلام کہنا!
قدیر خاں کو سلام کہنا
ابھی یہ آنکھیں بھی ہیں مقید
ابھی سخن کا ہر ایک لہجہ ہے برف اوڑھے
ذرا یہ موسم پگھلنے دو تم …!
تو حسن اپنی نئی ادا سے نشیب شب سے طلوع ہو گا
ابھی ہے مشکل پیام کہنا
سلام کہنا!
مگر یہ کہنا کہ اب خزاں میں جو زرد پتے بکھر رہے ہیں
یہ زرد پتے ہی رات دن کا حساب لیں گے
…… جواب لیں گے!
کہ تم کو دشوار کس قدر تھا
سفید صبحوں کو شام کہنا
سلام کہنا!
کہ اب شکستہ گھروں کے آنگن نئی بہاروں سے یوں سجیں گے
خزاں کا جھونکا نہ اب کبھی بھی گزر سکے گا
نہ اس سے زیادہ کلام کہنا
سلام کہنا!
قدیر خاں کو سلام کہنا!