سید فخرالدین بلے کی یادیں

Dec 01, 2019

آج جب سیاست ہمیں ایسے ماحول میں لے آئی ہے کہ لوگ کردار کی خوشبو کو ترسنے لگے ہیں کیوں نہ ایسے لوگوں کی بات کی جائے جو سیاست، صحافت، ادب اور تصوف کے میدانوں میں سراپا خوشبو ثابت ہوئے۔ برسوں پہلے پنجاب کے شعبہ اطلاعات میں‘ ڈی جی پی آر کے منصب سے ریٹائر ہونیوالے ایسے ہی صاحب کردار شخصیت کو آج بھی لوگ یاد کر رہے ہیں۔ سید فخرالدین بلے کو صرف پاکستان میں ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی محبت کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے گذشتہ دنوں یونیورسٹی آف تہران کے شعبہ اردو کی صدر ڈاکٹر وفایزدان منش نے ’’سید فخرالدین بلے۔ ایک آدرش ایک انجمن‘‘ کے عنوان سے ضمیم کتاب کے کئی صفحات پر مبنی مقدمہ میں پاکستان کے اس مایہ ناز سپوت کو خراج عقیدت پیش کیا اور کتاب میں شامل مضامین اور لکھاریوں کے مقالوں کا اپنے انداز سے جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ بلے صاحب کتنی مینا رقامت شخصیت تھے۔ 1930ء میں بھارت کے شہرلم پوڑ میں پیدا ہونے والے سید نے علیگڑھ سے گریجویشن کے بعد ادیب کامل کی ڈگری بھی لی اور اپنے والد سید معین الدین کے احباب تلوک چند محروم، جوش مولوی عبدالحق جیس احباب کی صحبت سے بھی فیض حاصل کیا پھر یہ بھی دیکھا کہ انکے والد کسی طرح 1946ء میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کی الیکشن مہم کے انچارج کے طور پر تحریک پاکستان کیلئے مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ میرے جیسے ان کے جونیئر دوست زیادہ تر انکے سرکاری منصب کی مصروفیات تک ان کا جائزہ لیتے رہے جبکہ علم و ادب کی سرکرد شخصیات نے اپنے اپنے زوایے سے ان کو دیکھا اور پھر اپنے مقالات کے ذریعے گواہی دی۔ ڈاکٹر وفایزدان نے ان گواہیوں کا سرسری ساذ کر بھی کیا ہے اور بتایا ہے کہ مختلف قد آور ادیبوں اور صاحبان قلم نے ان کیلئے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیسے کیسے عنوانات تجویز کئے مثلاً ابتظار حسین نے ’’یہ سید کام کرتا ہے‘‘، سید آل احمد سرور نے ’’بلند پایہ کلام کا خالق‘‘، ڈاکٹر وزیر آغا نے سید فخرالدین بلے، تصوف پر اتھارٹی‘‘، ڈاکٹر فوق کریمی علیگ نے ’’فخر ادب، علی گڑھ کا بلے‘‘ پروفیسر منظر ایوبی نے ’’اس شخصیت میں کتنے جہان آباد ہیں‘‘، ڈاکٹر خواجہ زکریا نے سید فخرالدین بلے، بڑے حلم اور آبرو والے‘‘ پروفیر قیصر نجفی نے‘‘ ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘ طفیل ہوشیارپوری نے ’’کئی دنیاؤں کا ایک بڑا آدمی‘‘ جیسے عنوان کے تحت انکی شخصیت کا احاطہ کیا۔ اس طرح اور ندیم قاسمی ڈاکٹر انور سعدیہ بانو قدسیہ پروفیسر جاذب قریشی، افتحار عارف، اصغر ندیم سیدکمال احمد رضوی اورشبنم رومانی، پروفیسر خالد، پرویز دوسرے بہت سے احباب نے سید صاحب کو تفصیلی خراج عقیدت پیش کیا۔ سچ یہ ہے کہ ان کی شخصیت ہفت رنگ تھی۔ وہ ایک دلیر آفیسر بھی تھے، محمد علی بوگرہ، ذوالفقار علی بھٹو جنرل ضیاء الحق محمد خان جونیجو، حنیف رامے غلام مصطفی کھر، مخدوم سجاد حسین قریشی سمیت اقتدار کی بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ اتنے اعتماد کے ساتھ کام کرنا اور میڈیا کے حوالے سے سچ بات کرنا ان کی انفرادیت تھی۔ صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے بڑے بڑے حاکم کے سامنے ڈٹ جاتے تھے۔ تخلیقی سطح پر انہوں نے تصوف کے میدان میں ’’قول اور رنگ‘‘ کے حوالے سے بھرپور کام کیا کہ سید سعید احمد کاظمی جیسے صاحبان نظر کا کہنا پڑا کہ امیر خسرو کے سات سو سال بعد کسی شخصیت نے قوالی کو اسکے تاریخی حسن کے ساتھ تجزیاتی رنگ دیا ہے۔ سید صاحب نے 150 کے لگ بھگ چھوٹی بڑی کتابیں تخلیق کیں۔ ثقافتی میدان میں انکے بہت سے تاریخ ساز اقدامات میں سے ایک پچیس روزہ جشن تمشیل ہے۔ جس میں حصہ لینے اور ابتدا کرنے والے آرٹسٹ بعد میں بڑے بڑے اداکار بنے۔ اسی حوالے سے انہیں ’’محسن فن‘‘ اور ’’مین آف دی سٹیج‘‘ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ ان کی تقریباتی یادوں میں انکے گھر میں برسوں تک باقاعدہ ادبی مجالس کا سلسلہ قافلہ اور ’’پڑاؤ‘‘ ے نام سے اب بھی ادب کی بہترین یادوں کا حوالہ ہے۔ سید فخرالدین بلے نے جس طرح اپنے علمی ادبی روحانی قائد والد محترم کے نام کو اپنی سرگرمیوں سے تابندہ تر کیا اس طرح سید فخرالدین بلے کے فرزند ان کی یادوں کی روشنی میں صحافت اور علم و ادب میں اپنا اپنا بھرپور کردار اد کر رہے ہیں چنانچہ سید انجم معین بلے، سید عارف معین بلے سید ظفر معین بلے اور علی اور فیصل اپنے اپنے میدان میں مصروف کار ہیں سید آنس معین بلے مرحوم تو شاعری میں ایک حوالہ بن چکے ہیں۔ ظفر معین بلے نے ادب لطیف کی کئی سال ادارت کی ڈاکٹر وفایزدان منش نے اپنے طویل مقدمہ میں ایک اچھی بات لکھی ہے کہ سرسید اور ان کے رفقا کی کوشش اور شفقت سے جو روح علی گڑھ کے تعلیمی نظام میں پھونکی گئی وہ ابھی تک وہاں کی فضاؤں میں موجود اور محسوس کی جاتی ہے۔ یہ روح سید فخرالدین میں بھی رچی بسی تھی۔ وہ اس روح کو ہجرت کے وقت اپنے ساتھ پاکستان لائے اور گروہ بندیوں سے آزاد رہ کر صرف روشنی پھیلانے کا کام کرتے رہے، وہ محض ایک انجمن نہیں بلکہ قافلہ تھے اور اپنے شعر کی عملی تفسیر بھی:
میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل مرا مزار نہ پوچھ

مزیدخبریں