آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ’’ معاملہ‘‘

بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاک فوج کے’’ سپہ سالار ‘‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں6ماہ کی مشروط اجازت دے کر جہاں حکومت کو ’’بیل آئوٹ‘‘ کر دیا ہے وہاں بڑی حد تک آئینی بحران کو بھی ختم کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ کو جس خوش اسلوبی سے منطقی انجام کو پہنچایا ہے۔ اس میں کسی کی ہار ہوئی نہ جیت بلکہ بقول وزیر اعظم عمران خان ’’ عدالتی فیصلہ وفاق ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی فتح ہے ‘‘۔ یہ بحران وفاقی حکومت کی جانب سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع بارے میں جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں بار بار کی ’’اغلاط‘‘ سے پیدا ہوا جسے ختم کرنے کا راستہ بھی حکومت کو سپریم کورٹ دکھایا۔پاکستان میں کسی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پہلی بار نہیں ہو رہی تھی ۔ اب تک 7 آرمی چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع ہو چکی ہے۔ اب کیا’’ انہونی ‘‘ ہو گئی کہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔ پوری ’’کہانی‘‘ موجودہ حکومت کی ’’نا تجربہ کاری ‘‘ اور نالائقی ‘‘ کا ایک ’’شاہکار‘‘ہے جس کی ماضی میں کہیں نظیر نہیں ملتی ۔ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے ’’دانستہ‘‘ غلطی ہوئی ہے یا محض اتفاق۔ بقول چیف جسٹس آف پاکستان ان ’’نالائقوں ‘‘ کی ڈگریاں چیک کرنے کی ضرورت ہے جن سے بار بار’’ غلطیاں ‘‘ سرزد ہوئیں ۔
ان غلطیوں کا آغاز 19اگست2019ء کو ہی ہو گیا جب وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3سا ل کی توسیع کا فیصلہ کیا اور مروجہ طریقہ کار اختیار کئے بغیر اسی روز اپنے دستخطوں سے نوٹیفیکشن جاری کر دیا۔ یہ ان کی’’ لیگل ٹیم‘‘ کی نالائقی تھی جس نے اسی وقت وزیر اعظم کو اپنے دستخطوں کے ساتھ نوٹیفیکشن جاری کرنے سے نہیں روکا۔ وزیر اعظم کی غلطی اس لئے قابل معافی ہے کہ انہیں اس سے پہلے ’’رموز حکومت ‘‘ چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لئے ان کو اس غلطی سے روکنا ان کی ’’ لیگل ٹیم ‘‘ کی ذمہ داری تھی جو اس کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ جب حکومت کو ’’غلطی ‘‘ کا احساس ہوا تو حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی پھر افرا تفری میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو قواعد و ضوابط کے مطابق بنانے کی کوشش میں مزید ’’ غلطیاں‘‘ سرزد ہوئیں۔
پھر وفاقی وزارت قانون و انصاف کے افسران کی’’ نالائقیوں‘‘ نے رہی سہی کسر نکال دی یہ بات حیران کن ہے کہ ’’ وفاقی وزارت قانون و انصاف کے حکام کو ڈیفنس سروسز رولز کے بارے میں پوری آگاہی تھی اور نہ ہی ڈیفنس سروسز رولز کی کاپی تھی‘‘ جو بمشکل اٹارنی جنرل آف پاکستان کے پاس سپریم کورٹ میں پہنچائی گئی۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معمول کے کام کو ایک ’’تماشا‘‘ بنا دیا گیا ۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفیکیشن میں اغلاط نہ کی جاتیں تو یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جانے کی نوبت ہی نہ آتی بدحواسی میں کی اغلاط کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو قابل قبول نوٹیفیکشن کی راہ دکھائی۔ سپریم کورٹ نے فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کرنے کیلئے ’’گیند‘‘ پارلیمنٹ کی کورٹ میں پھینک دی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں حکومت کو آئین کے آرٹیکل 243کا از سرنو جائزہ لینے کی بھی ہدایت کی لیکن اسی روز حکومتی قانون دانوں نے(جن میں سے ایک نے قانون کی ڈگری تو حاصل کر لی ہے لیکن اسے ایک دن بھی کچہری جانے کی توفیق نہیں ہوئی ) سپریم کورٹ کے فیصلے کی نئی تاویلیں پیش کرنا شروع کر دی ہیں اور موقف اختیار کیا ہے کہ ’’ایکٹ آف پارلیمنٹ ‘‘ کے ذریعے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بارے میں ’’سقم ‘‘ دور کر دئیے جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ وفاقی وزراء نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ ’’ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ نہیں، 3سال توسیع ہوئی ہے‘‘ ۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔
آرمی چیف کی تقرری یا مدت میں توسیع بارے قانون سازی کے لئے حکومت کاپاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ سر دست صورت حال واضح نہیں کہ حکومت آئین کے آرٹیکل 243میں ترمیم کرے گی یا معمول کی قانون سازی کے ذریعے اس معاملہ کا حل تلاش کرے گی فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اگر آرمی چیف کی تقرری/توسیع ، تنخواہ اور مراعات کے معاملات کو آئینی ترمیم میں طے کر دیا گیا تو پھر کوئی شخص اس بات کو سپریم کورٹ میں نہیں لے جا سکے گا ۔
اگر آئین کے آرٹیکل 243میں آرمی چیف کی تقرری/توسیع میں ابہام دور کرنے کے لئے آئینی ترمیم کو ناگزیر سمجھا گیا تو اپوزیشن کی حمایت کے بغیر آئینی ترمیم کی منظوری ناممکن ہے اسی طرح معمول کی قانون سازی بھی اپوزیشن کے تعاون کے بغیر خاصی مشکل نظر آتی ہے کیونکہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے جو حکومت کی جانب سے کسی بھی بل کی منظوری کو ایک بار روک سکتی ہے یا اسے مسترد کر کے دوبارہ قومی اسمبلی کو بھجوا سکتی ہے سینیٹ معمول کی قانون سازی کو موخر بھی کر سکتی ہے آئینی ترمیم منظور کرنے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کا ’’دوستانہ‘‘ ماحول پیدا ہونا ضروری ہے اس کیلئے حکومت کو نہ صرف اپنے اس ’’بیانیہ‘‘ کہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑں گا ‘‘ پر نظر ثانی کرنا پڑے گی بلکہ اپوزیشن کی طرف جھکنا ہو گا اور اسے ’’ریلیف ‘‘ دینا پڑے گا ۔
پوری اپوزیشن کو ’’احتساب‘‘ کے نام پر جیلوں میں ڈال دینے سے قومی اتفاق رائے کا ماحول پیدا ہونا ناممکن ہے۔ جمعیت علما ء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ جو شروع دن سے حکومت گرانے کے’لئے ’ لنگوٹ‘‘ کس کر میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ ’’مقتدر حلقوں ‘‘ کی جانب سے ’’قبل از وقت ‘‘ انتخابات کرانے کی جس ’’ یقین دہانی ‘‘ کا ببانگ دہل دعویٰ کر رہے ہیں اب اس کی تکمیل کا وقت آگیا ہے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن آئینی ترمیم اور ایکٹ آف پارلیمنٹ کی منظوری کے لئے ’’ مشروط‘‘ طو پر آمادہ ہو جائے گی کیونکہ اپوزیشن کی ’’بارگینگ پاور ’’ بڑھ گئی ہے۔ وہ اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اپوزیشن ’’سیاسی افق‘‘ تبدیل کرنے کی یقین دہانی پر عمل درآمد کی صورت میں ہی آئینی ترمیم یا ایکٹ آف پارلیمنٹ کی حمایت کرے گی۔ حکومت کو اپوزیشن رہنمائوں کی ’’پکڑ دھکڑ ‘‘ کی پالیسی پر نظر ثانی بھی یکسر تبدیل کرنا پڑے گی۔ ’’جیو اور جینے دو ‘‘ کی پالیسی کے تحت اپوزیشن کو آزادانہ ماحول میں ’’زندہ‘‘ رہنے کا موقع فراہم کرنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ملنے ’ والے ’ ریلیف ‘‘ کے بعد وزیر اعظم عمران خان اور وزراء کو سکھ کا سانس لینا چاہیے لیکن جوں ہی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا یا وزیر اعظم عمران ٹویٹ اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد بیان کے ذریعہ اپوزیشن پر’’ حملہ آور ‘‘ ہو گئے جس سے اپوزیشن حلقوں میں اشتعال کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے یہ بات کہی جا رہی ہے حکومت ایسا ماحول پیدا کررہی ہے جس میں سپریم کورٹ کے مقرر کردہ شیڈول میں قانون سازی نہ ہو سکے وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ ’’اداروں کے درمیان تصادم سے عدم استحکام لانے والے ہار گئے ہیں ، ملک دشمن عناصر اور بیرون ملک میں دولت رکھنے والوں کو مایوسی ہوئی ہے، آج اداروں کے درمیان ٹکرائو کی خواہش رکھنے والوں کیلئے مایوسی کا دن ہے‘‘ ۔
حکومت نے اپوزیشن بارے میں جو ’’ طرز عمل‘‘ اختیار کر رکھا ہے اس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔ اگر حکومت کا موجودہ طرز عمل برقرار رہا تو اپوزیشن آئینی ترمیم یا ایکٹ آف پارلیمنٹ پر تعاون کے لئے کسی حکومتی عہدیدار سے بات نہیں کرے گی ۔ اپوزیشن جماعتوں نے ’’حساس ‘‘ مسئلہ پر انتہائی محتاط انداز طرز عمل اختیار کیا ہے اور اس بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کرنے سے گریز کر رہی ہیں تاہم ایک حساس نوعیت کی تقرری میں اغلاط کو حکومت کی ’’نا اہلی‘‘ قرار دے رہی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا لیا تھا لیکن ابھی تک یہ عقدہ حل نہیں ہوا کہ سپریم کورٹ سے’’ ریلیف ‘‘ ملنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جانے کی زحمت کیوں گوارہ نہیں کی۔ پارلیمانی پارٹی کے ارکان ان کی راہ تکتے رہ گئے جب کہ ان کو وزیر اعظم کی جانب سے ہر قیمت پر حاضری یقینی بنانے کا پیغام موصول ہوا تھا۔ بعض ارکان نے اس بات پر’’ ناراضی‘‘ کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایک دن کے نوٹس پر سینکڑوں کلومیٹر فاصلہ طے کر کے آئے ہیں لیکن ان کی وزیر اعظم سے ملاقات نہیں ہو سکی معلوم نہیں وزیر اعظم کیا بڑا اعلان کرنے والے تھے جو انہوں نے موخر کر دیا۔ اپوزیشن نے اب تک حکومت کی سب سے بڑی غلطی کا پارلیمنٹ میں ’’ سیاسی فائدہ ‘‘ اٹھا نے کا پرو گرام بنا رکھا تھا لیکن حکومت نے 2دسمبر 2019ء کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس میں موخر کرنے میں عافیت سمجھی ۔
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر دبائو بڑھانے کی پہلے ہی منصوبہ بندی کر رکھی ہے‘ اب اسے حکومت پر دبائو بڑھانے کا نیا موقع مل گیا ہے۔ وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع میں طریقہ کار میں فاش غلطیوں کو اپنے ’’بیانیہ‘‘ حصہ بنائے گی اور اسے قدرے زور سے ’’ قبل ازوقت‘‘ انتخاب کا نعرہ لگانے کا موقع مل جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے ’’سیاست‘‘ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ حکومت آرمی چیف کی تقرری /توسیع کے معاملہ کو خوش اسلوبی حل کرتی ہے یا اپنے وزراء کی بیان بازی سے معاملہ بگاڑتی ہے۔ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...