تعلیم میں سابقہ تباہ کاریوں کا ادراک

(قومی یک تعلیمی سسٹم کی کمیٹی کیلئے)
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ 1966ء کے مطابق پین کی فراست پر پستول کی سیاست کا آغاز 1962ء میں ہوا اس کا نکتہ عروج سقوط مشرقی پاکستان میں ظاہر ہوا۔ پاکستان دشمن عناصر کو یہ حربہ مشرقی پاکستان میں پاکستان کے آغاز کے ساتھ ہی 1953ء کے الیکشن میں ہاتھ آیا جب ان عناصر نے چند مخصوص قسم کے طلباء تعلیمی اداروں میں اتارے جو اس وقت کی حکومت کی بے بصیرتی اور عدم توجہ سے دس سالوں میں ایک اچھی خاصی پوشیدہ قوت بن گئے۔
اس کا تباہ کن آغاز 1962ء میں اس وقت ہوا جب ایوب حکومت کی تعلیمی پالیسی کو نافذ ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اسکے ردعمل کی پہلی لہرمظاہروں کی صورت میں مشرقی پاکستان سے اٹھتی ہوئی مغربی پاکستان میں پہنچی تھی اس کی شہرت کا عالم یہ تھا کہ حکومت کوکئی مقامات پر گولی چلانی پڑی اور بالآخر طلباء کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ بی اے‘ بی ایس سی مجوزہ تین سالہ ڈگری کورس کو دوبارہ دو سالہ ڈگری کورس میںلانا پڑا۔ اسی طرح داخلی امتحانات وغیرہ سے متعلقہ 25نمبر دینے کا اختیار متعلقہ اساتذہ سے واپس لے لیا گیا۔ یوں مظاہروں سے مطالبات منوانے کی رسم کی بنیاد پڑی‘ طلباء پر اپنی تادیدہ قوت کا انکشاف ہوا اور سیاسی پارٹیوں کو اس اندھی قوت کو اپنے قابو میں لانے کا خیال آیا۔ ساتھ ہی سیاسی پارٹیوں کی اقابت کا دائرہ وسیع ہوتے ہوئے تعلیمی اداروں تک پھیل گیا اور ان سیاسی پارٹیوں کی درپردہ پشت پناہی سے (بمطابق حمود الرحمن کمیشن رپورٹ) توڑ پھوڑ کا یہ سارا غیر نصابی طوفان‘ غیر نصابی ہیروز کے طفیل مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں سے اٹھا اور مشرقی پاکستان کے مسلم تشخص کو تباہ کرتے ہوئے مغربی پاکستان کو بھی تہ دبالا کرتا چلا گیا۔
حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا دور میں یونیورسٹی اور کالجوں میں طلباء کی مسلمہ تنظیموں کے علاوہ ملک گیر سطح پر نمایاں غیر غیر مسلم شدہ تنظیموں کی تعداد 14کے قریب تھی جس میں سے 9 تنظیمیں تو مغربی پاکستان میں تھیں اور 5مشرقی پاکستان میں۔ مشرقی پاکستان کی یہ پانچ کی پانچ تنظیمیں واضح طور پر مختلف سیاسی پارٹیوں کی تنظیمیں تھیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مغربی پاکستان میں ابھرنے والی 9تنظیمیں زیادہ تر مظاہروں کی پیداوار تھیں ان کا تشخص واضح نہیں تھا سوائے سلامی جمعیت طلباء کے جو ایک منظم تنظیم تھی۔ کمیشن کے مطابق باقی تنظیموں کا نہ تو کوئی واضح منشور تھا اور نہ ہی تشخص۔ ان کے متعلق یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ وہ کیسے وجود میں آئیں اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے ان کے پاس سرمایہ کہاں سے آتا تھا اس کے علاوہ کمیشن یہ اندازہ لگانے سے بھی قاصر تھا کہ ان تنظیموں کو طلباء کی کہاں تک نمائندگی حاصل تھی۔ البتہ یہ بات کمیشن کیلئے بہت تعجب انگیز تھی کہ ان تمام تنظیموں کی طرف سے پیش کئے گئے مطالبات کی فہرستوں میں مماثلت کا عنصر بہت غالب تھا۔
اس مشابہت کی وجہ تو ظاہر ہے کہ ان مظاہروں کا ہدف نئی تعلیمی پالیسی کو بنایا گیا تھا دوسری وجہ یہ کہ بہت سے لوگوں کے ذاتی مفادات اس پالیسی سے متاثر ہو رہے تھے۔ تیسری اہم ترین بات یہ تھی کہ اس قدرتی ردعمل سے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے اسلام دشمن عناصر کو ایک بہت مؤثر حربہ مل گیا تھا بلکہ جس موقع کیلئے اتنی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کی گئی کہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا راستہ ہموار ہو گیا تھا۔
جنرل ضیاء کے دور میں جونئی تعلیمی پالیسی آئی وہ پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلی تعلیمی پالیسی سے ایک نئے رُخ سے کچھ کچھ ہم آہنگ تھی اس میں جدید دور کے تعلیمی تقاضوں کو بھی پورا کیا گیا تھا لیکن اسکے ساتھ نئی نسلوں کی نظریہ پاکستان کی روشنی میں کماحقہ تربیت کے لئے مؤثر شقیں بھی شامل کی گئی تھیں۔ اس تعلیم کے نفاذ کے بعد وفاقی وزیر تعلیم نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی اسلام آباد میں میٹنگ بلائی جس میں راقم کو بھی اپنی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جگہ نمائندگی کرتے ہوئے شمولیت کا موقع ملا وفاقی وزیر نے ہر وائس چانسلر کی نئی پالیسی کے مطابق انفرادی رائے پوچھی راقم نے ایوب دور کی پالیسی جسے ساڑھے تین سو ماہرین نے تشکیل دیا اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے اور وسیع پیمانے پر تشکیل دی گئی پالیسی کن اسباب کی وجہ سے عمل میں نہ لائی جا سکی اس کی تحقیق کی جائے مبادایہ پالیسی بھی نفاذ میں ناکام ہو جائے ۔ اتفاق سے میرے بعد باری جن موقر تعلیم کے ماہر کی آئی وہ مرحوم خان ولی خان کے بھائی علی خان صاحب کی تھی جنہوں نے وفاقی وزیر کو باخبر کیا کہ حسن اتفاق سے جس تحقیق کا اشارہ کیا گیا ہے حکومت کے ایما پر اس تحقیقاتی کمیٹی کا میں چیئرمین تھا ۔ہم نے بڑی محنت سے تمام یونیورسٹیوں میں جا کر تحقیق کے عمل کے بعد رپورٹ حکومت کو بھیجی۔ مجھے علم نہیں وہ ردی کی ٹوکری میں چلی گئی یا کسی الماری کے کونے میں گردوغبار کی نذر ہو گئی۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...