انائو سے میٹرک کرنے کے بعد وہ لکھنؤ میں گورنمنٹ جوبلی انٹرمیڈیٹ کالج میں داخل ہوئے۔ وہاں اُنہیں اس وقت کے مشہور اساتذہ حامد اللہ افسر، علی عباس حسینی، اختر علی تاہری اور فارسی کے مولوی محمد حسین جیسے بلند مرتبت اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ان کے اساتذہ کی صحبت میں رہ کر ہی اُنہوں نے اپنا پہلا افسانہ 1930 میں ’’پریم رس‘‘ تحریر کیا۔ اسکے علاوہ اُنہوں نے افسانہ ’’جو میں ایسا جانتی‘‘ اور کئی افسانے لکھ ڈالے جو اُس وقت کے مشہور جریدوں مثلاً ساقی، نیرنگ خیال اور عالمگیر میں شائع ہوئے۔ مگر 1933 میں جب اُنہوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا تو افسانہ ترک کردیا اور تنقید کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ یہاں اُنہوں نے رام نرائن لال ناشر کی دکان پر ایف اے کے فارسی نصاب کی کتاب کے انگریزی ترجمے بھی کیے۔ والدصاحب کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے اپنے تعلیمی اخراجات بھی خود ہی اُٹھائے اور انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ اپنا مقام خود بنایا اور ساتھ ساتھ مختلف ادبی محفلوں میں شرکت بھی کرتے رہے اور مشہور ادبی جریدوں میں لکھتے بھی رہے۔ 1933۔ 1934 ء میں وہ نصابی کتابوں کے علاوہ ادب اور تنقید اور تعلیم پر بھی مضامین لکھنے لگے تھے۔ اپنی تعلیم کے دوران ہی وہ بہت سے مضامین کے تراجم بھی کرتے رہے۔ 1934ء میں سیّدوقار عظیم نے ایم اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ آپ کے تراجم اور درسی کتابیں اُس زمانے میں انڈین پریس اور الٰہ آباد کے رام نرائن لعل نے شائع کیں۔ ایم اے کرنے پر سیّد وقار عظیم کو جو وظیفہ ریسرچ ورک کیلئے دیا۔ اُنہوں نے مقالہ ’’اردو کی شاعری پر مقامی اثرات‘‘ تحریر کیا۔ اس مقالہ کے بعد گو کہ اُنکی ڈاکٹریٹ کی اجازت مل گئی مگر اُنکی والدہ اور والد کی یکے بعد دیگرے انتقال کی وجہ سے وہ اِسے جاری نہ رکھ سکے۔ سیّدوقار عظیم نے ایم اے کرنے کے بعد علی گڑھ سے بی ٹی کی امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور پھر الٰہ آباد واپس چلے آئے جہاں وہ اُردو کے اُستاد مقرر ہوئے۔ ادب میں اُن کی دلچسپی ویسے ہی قائم رہی اور وہ تصنیف و تالیف میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے۔ 1938ء میں اُنہوں نے جامعہ ملیہ میںپڑھانا شروع کردیا۔ یہاں سیّدوقار عظیم 1938 سے 1942 تک رہے اور اسی دوران اُنکی شادی 27دسمبر 1938ء عابدہ بیگم سے انجام پائی۔ پانچ برس جامعہ ملیہ میں اُنہوں نے بہت سی درسی اور اچھی کتابوں کے ترجمے بھی کیے جن میں قابل ذکر گاندھی جی کی سوانح عمری ’’تلاشِ حق‘‘ اور جواہر لال نہرو کی آٹوبائیوگرافی Glimpse of the world history کے بعض حصوں کے ترجمے سیّدوقار عظیم کے کیے ہوئے ہیں۔ 1935ء میں اُن کی دو کتابیں ’’افسانہ نگاری‘‘ اور ’’ہمارے افسانے‘‘ چھپ چکی تھیں۔ 1939ء میں دہلی میں جب تک رہے آل انڈیا ریڈیودہلی سے تازہ مطبوعات پر تبصرے کرنے کا فرض بھی ادا کرتے رہے۔ 1942ء سے 1946ء تک پولی ٹیکنیک کے نام سے تعلیم و دستکاری کا ادارہ قائم ہوا تو وہاں اُستاد مقرر ہوئے۔ یہاں آپ نے 1942 سے 1946 تک کام کیا۔ 1946 میں پرچہ ’’آج کل‘‘ دہلی کے مدیر ہوکر جامعہ کو الوداع کہا یہاں آپ کو پولی ٹیکنیک کی تنخواہ سے تین گنا زیادہ رقم دی گئی۔ اس سارے عرصے میں مصروفیت کے باعث سیّدوقار عظیم ادبی مصروفیات سے کنارہ کش رہے تاہم اُن کا حلقۂ احباب وسیع ہوگیا۔ مگر مدیر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے اُنہیں بہت سے ادیب شاعروں کی صحبت حاصل ہوئی جن میں پطرس بخاری، حفیظ جالندھری، فیض احمدفیض، حمیداللہ خاں، حامد علی خان، کیپٹن عبدالواحد، تاثیر، مجیدملک، چراغ حسن حسرت، ممتاز حسن، اے ڈی اظہر، کرشن چندر، منٹو، میراجی جیسی قابل شخصیات کے نام شامل ہیں۔ جن دنوں وہ ’’آج کل‘‘جریدہ کے مدیر تھے اُنہی دنوں پارٹیشن ہوئی تو اُنہوں نے ہر چیز پاکستان کے نام پر قربان کی اور نئے جذبوں کے ساتھ ہندوستان کو خیرآباد کہہ کر پاکستان چلے آئے۔ (جاری)