آخری ہچکولے کھاتی پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس

Dec 01, 2020

مطلوب وڑائچ

آج پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لگائے ہوئے اس پودے کی عمر نصف صدی سے زیادہ ہو چکی ہے اور راقم کو یہ شرف حاصل ہے کہ شہید بی بی بینظیر بھٹو نے اندرونی پارٹی پالیٹکس اور مخالفت کے باوجود مجھے پیپلزپارٹی فیڈرل کونسل کا نوعمر رکن منتخب کیا۔ شہید بی بی کی شہادت کے بعد پہلے جانثار کارکنوں کو رفتہ رفتہ پارٹی سے نکالا گیایا دور کیا گیا اور پھر آج لولی لنگڑی بھٹو شہید کی پیپلزپارٹی کو لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا گیا ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی قیادت کے پانچ نام نہیں بتا سکتے۔ جب تک لاہور اور پنجاب بھر میں جھونپڑیوں اور غریبوں کی چھتوں کے اوپر پیپلزپارٹی کا جھنڈا لہراتا رہا اور خصوصاً لاہوریے یہ جانتے ہیں کہ مشرف کے آٹھ سالہ اقتدار میں میرے جوہر ٹائون لاہور والے گھر پر پارٹی کا ترنگا ببانگ دہل لہراتا رہااور جب سے بلاول ہائوس لاہور اربوں روپے کی لاگت سے تیار ہوا ہے تب سے بھٹو غریب کارکن کے دل سے نکل کر محلات میں جا بسا ہے۔پنجاب میں سے پیپلزپارٹی ہمیشہ 80یا 90قومی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی مگر آج یومِ تاسیس پر حالت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب سے اپنا ایک بلدیاتی کونسلر بھی منتخب نہیں کر اسکتی۔پاکستان پیپلزپارٹی آج 53سال کی ہو گئی۔ 30نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اس پارٹی کی بنیاد رکھی۔ وہ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کو زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں تک لے گئے۔
 حالات گردش اور وقت کی ضرورت نے بینظیر بھٹو شہید کو ان کا جاں نشین بنایا۔حالات غیر معمولی اورروح فرسا نہ ہوتے تو ذوالفقار علی بھٹو کسی پارٹی کے لیڈر کو اپنا جاں نشین بناتے۔ بینظیر بھٹو نے پارٹی کا پرچم اپنے عظیم باپ کی طرح بلند رکھا، اسے جھکنے نہ دیا۔ شہید بے نظیر بھٹوکے بعد پارٹی کی جاں نشینی بھی شب خون کی زد میں آگئی۔ بڑے لوگوں کی پارٹی پر چھوٹی سوچ کے حامل لوگ قابض ہو گئے۔ اقتدار میں پارٹی آئی تو پوری دنیا کو معلوم ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے نام اور بے نظیر بھٹو شہید کے لیاقت باغ میں بہے تازہ خون کے باعث آئی۔2008ء کے انتخابات میں کامیابی بینظیر بھٹو کی چلائی ہوئی جاندار انتخابی مہم کی مرہونِ منت تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ مشکل مقبولیت کو برقرار رکھنا ہوتا ہے، وہ کتنی برقرار رہی 2013ء کے انتخابات میں دنیا نے دیکھ لیا۔ پنجاب نے پیپلزپارٹی کو ہمیشہ عزت دی، اعتماد دیا اور ووٹ دیا۔ 2013ء کے الیکشن میں بھٹوز کا جعلی جاں نشینی کرنے والوں کو ہر صوبے میں لوگوں نے مسترد کر دیا۔ سکڑسکڑ کے پارٹی سندھ تک محدود رہ گئی۔ وہاں بھی جو سیٹیں وڈیرا شا ہی کی وجہ سے ملیں۔ اگلے الیکشن میں وہاں سے بھی صفایا ہوتا نظر آتا ہے۔ گلگت بلتستان میں پی پی پی بہت کچھ کر سکتی تھی۔ ن لیگ کو اس کا بیانیہ لے ڈوبا۔ اس کا خلا پی پی پی پُر کر سکتی تھی۔ بلاول نے وہاں مہم چلائی مگر وہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔مہم کے پہلے دن ہی سے دھاندلی کا شور اٹھا دیا۔ تحریک انصاف عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکی۔ مہنگائی ہے ،بے روزگاری ہے اور بھی مسائل ہوں گے مگر وہ کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کیلئے کمٹڈ ہے ۔ کسی حد تک احتساب ہوتا ہوا نظر بھی آ رہا ہے۔  پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کا جلسہ نصف صدی سے ہوتا آیا ہے۔آج کرونا زوروں پر ہے جلسے سے گریز کی ضرورت تھی مگر ضد کی گئی کہ جلسہ ضرور کرینگے، ہر صورت میں کرینگے۔ یوسف رضا ملتانی خود کرونا کا شکار ہوئے، ایک بیٹا بھی ہوا، مریم نواز کے شوہر ہوئے ،کائرہ ہوئے مگر پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت مان کر نہ دی۔ ادھر مریم کی دادی کی میت لندن سے آئی دوسرے دن وہ بھی جلسے میں شرکت کا عزم ظاہر کر رہی تھیں۔ ابا جی نے کہا ہے کہ یہ ذاتی دُکھ ہے۔ عوام کا دکھ بڑا ہے۔ ذاتی دکھ بھول کر جلسہ میں جائو۔ ایسے موقع پر انسان کو اپنی ہوش نہیں ہوتی ان کو جلسوں کا جنون ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے جلسے کی سقراطانہ توجیح پیش کی ہے۔ کہتے ہیں لوگ روز بازار میں جاتے ہیں جلسہ تو صرف ایک دن ہونا ہوتا ہے۔ لوگ بازار میں جلسے کرنے جاتے ہیں؟ لوگ بازار نہ جائیں روزگار نہیں چلتا، گھر نہیں چلتا۔ جلسہ نہ ہو تو کیا ہوسکتا ہے؟ صرف کرونا سے بچا جا سکتا۔ بلاول ویڈیو لنک سے خطاب کریں، کیونکہ ان کو کروناہے،جلسے میں آنیوالے بے شک کرونا کا شکار ہو جائیں ان کو بھی وڈیو لنک سے خطاب سننے دیں ۔ بہرحال جلسے کا حشر دنیا نے دیکھ لیا۔ حکومت گرانے کیلئے ایسے جلسے جلوس کچھ نہیں کر سکتے۔ خد اکے بندو !حکومت سے نجات حاصل کرنی ہے تو اسمبلیاں چھوڑ دو، کشتیاں جلا دو، ادھر آنے کو تیار نہیں۔ میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ 2018ء کے انتخاب کے بعد مولانا فضل الرحمن کی بات مان لینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ اسمبلیوں میں نہ جاتے، یہ ایسی غلطی ہے جو آج بھی درست ہو سکتی ہے مگر استعفیٰ کیا یہ لوگ دینگے۔ گلگت بلتستان میں بھی ویسا ہی دھاندلی کاراگ الاپ رہے ہیں اور اسمبلی میں بھی براجمان ہیں۔ یہ کس کو بیوقوف بناتے ہیں، عوام کو نہیں بنا سکتے ،کیا خود بن رہے ہیں۔ پی پی پی کے جینوئن جیالوں کو پی پی پی کا یومِ تاسیس مبارک ہو۔یہ جیالے کوشش کریں کہ پارٹی بھی جینوئن لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائے۔

مزیدخبریں