او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب بڑی تنظیم اور دنیاکا سب سے بڑا فورم ہے۔آج مسلم امہ کے سامنے سب سے بڑا ایشو اسلامو فوبیا ہے۔اسلام کی تعلیمات کے کچھ لوگ مسخ کر کے پیش کررہے ہیں۔کچھ متعصب اور کینہ پرور حلقے سلامتی اور امن و آشتی کے عظیم مذہب کو شدت پسندی کا لبادہ پہنا کر سادہ لوح لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اسلام کا دفاع اور تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور سب سے زیادہ یہ ذمہ داری ہر مسلمان ملک پر عائد ہوتی ہے۔ اس بات کو مزیدآگے بڑھایا جائے تو مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو اس حوالے سے سب سے زیادہ کرادر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تنظیم کے وزرائے خارجہ نائیجیریا میں جمع ہوئے ۔دوروزہ کانفرنس کا اعلامیہ سامنے آچکا ہے جس میں اسلامو فوبیہ کے بارے میں امید افزا پیش رفت سامنے آئی ہے ہر سال 15مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔گزشتہ سال وزیراعظم عمران خان،طیب اردگان اور مہاتیر محمد نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے گائیڈ لائن دی تھی۔عالمی سطح پر قانون سازی کی تجاویز دی تھیں مگر اس معاملے میں پیشرفت نہیں ہوئی۔او آئی سی کے فورم سے اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت تھی۔اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی سطح پر قانون سازی کا مسودہ اس کی طرف سے تیار کیا جانا چاہئے تھا۔اسلام کیخلاف گمراہ کن پراپیگنڈے کا جواب بھی اسی تنظیم کی طرف سے دیا جائے تو زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے۔اس معاملے میں کہیں کوئی اختلاف اور ابہام موجود نہیں،کسی ملک کی طرف سے پہلو تہی اور گریز ممکن نہیں۔کشمیر پر بھی اوآئی سی کی طرف سے اچھی بیان بازی سامنے آئی ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کشمیر پر اوآئی سی کے موقف سے مطمئن ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اوآئی سے نے بھارت کو تنبیہ کی ہے۔بھارت کو ایسی تنبیہ سے کیا فرق پڑے گا۔اب او آئی سی کی طرف سے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے مبادہ آخری کشمیری بھی بھارت کی سفاکیت اور بربریت کی بھینٹ چڑھ جائے۔مسلم ممالک کے مابین اختلاف ضرور ہیں یہ اختلافات دشمنی اور جنگوں کی نوبت تک پہنچے ہیں مگر بے جا الزامات سے گریز کیا جاتا ہے جس کی تازہ ترین مثال ایران میں ایٹمی سائنسدان محسن فخری کا قتل ہے جو ایران کے ایٹمی پروگرام کے بانیوں میں سے تھے۔ محسن فخری زادہ کو تہران کے باہر قتل کیا گیا۔حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ کیا اور مشین گنوں کا استعمال کیا۔گویا وہ انکو ہر صورت ہلاک کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھے اسرائیلی وزیراعظم نے محسن فخری زادہ کو ایرانی ایٹمی پروگرام کا بنیادی کردار قرار دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے دھمکی آمیز انداز میں کہا تھا اس شخص کا نام یاد رکھو۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے جوہری سائنسدان کے قتل میں اسرائیل ملوث ہے۔ ایران کی طرف سے مخالفت برائے مخالفت نہیں کی گئی۔کسی مسلم ملک پر الزام نہیں لگایا گیا۔اسرائیل کو پاکستان کی طرح ایران کا وجود بھی کھٹکتا ہے۔پاکستان کے ایٹمی سائنسدان بھی اسرائیل کے نشانے پر رہے ہیں اور بدستو رہیں۔ پاکستان انکی کی جس طرح حفاظت کرتا ہے ایران اسے فالو کرے۔بھارت کے کئی سائنس دان بھی قتل ہوچکے ہیں۔بھارت کا تو ایٹمی پروگرام بھی غیر محفوظ ہے جس میں چوری تک ہوچکی اور حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔جب ہم اپنے مقامی مسائل کی بات کرتے ہیں تو کرونا بے قابو ہوا نظر آتا ہے۔کرونا کی دوسری لہر زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے۔ حکومت کی طرف سے پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ شادی ہالوں میں سرگرمیاں محدود ہورہی ہیں اور تعلیمی ادارے پھر بند کردیئے گئے ہیں۔بہت سے تعلیم ادار کمرشل پوائنٹ آف ویو سے بنائے گئے ہیں،وہ بہرحال شرح خواندگی میں اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔تعلیمی ادارے بند ہونے سے ان کے بقا کا مسئلہ بھی سامنے آرہا ہے۔حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔اُدھروفاقی حکومت نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020کے مسودہ کو حتمی شکل دے دی۔ جس میں کئی ابہام اور کئی حوالوں سے مجرموں کی حوصلہ شکنی سے عاری بھی ہے۔وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 کے مسودہ حتمی جائزہ لیا۔ اس قانون میں 10سے 25 برس قید کے علاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں ہوں گی۔ کیمیکل کیسٹریشن کچھ کیسز میں مخصوص مدت کیلئے یا زندگی بھر کیلئے ہو سکے گی۔زیادتی کے مجرم کی ایک سزا ضروری ہے اور وہ ہے سزائے موت اگر یہ سر عام ہو تو مزید عبرت کا سامان بنے گی۔ہر کیس میں ان کیمرا ٹرائل کا جواز نہیں۔ عدالت کیس کے جس حصے کا عام اور جس کا ان کیمرا چاہے وہ صورتحال کے مطابق فیصلہ کرسکتی ہے۔
او آئی سی سے امیدیں۔۔۔اور مبہم قانون
Dec 01, 2020