’’دو انڈے فی کس‘‘

مہنگائی کی لہر سانس نہیں لینے دے رہی ہے ،جس قسم کے حالات پید اہو چکے ان میں اب اعداد وشمار کی پناہ لینے کا وقت گزر گیا ہے ،انڈہ اگر 20 روپے کا  تھا وراب وہ 19روپے ننانوے پیسے کا ایک ہو گیا ہے تو یہ سستائی  نہیں ہے اور نہ  یہ قیمت نیچے آنے کا کوئی پیمانہ ہے ،صحت کے ماہرین  ایڈوائس کرتے ہیں دو انڈے روز کھائیں،اس حساب سے پانچ افراد کے کنبے کو  دو سو روپے روزانہ کی ضرورت ہوگی،جس ملک میں محتاط  تخمینہ  کے مطابق  غالب اکثریت  دو دالر روازنہ  کی آمدن کی حامل ہو وہاں دو انڈے فی کس کا مشورہ قابل عمل نہیںہے ،یہ صرف نمونے کے لئے ایک مثال دی ہے،یہاں تو آٹے ،دال کے لالے پڑے ہوئے ہیں،چند ماہ پہلے تک 50روپے کلو میں دستیاب آٹا 80روپے کلو میں مل رہا ہے ،کوئی دال بتا دیں جو دوسو روپے کلو سے کم میں ہو ،کسی سبزی  کا نام لیں جو سو روپے کلو سے کم میں دستیاب ہو .گاجر سیزن کے آغاز میں ستر روپے کلو تھی اب جبکہ سپلائی میں تیزی آ جانا چاہئے تھے اور اس کے نرخ کم ہونا چاہئے تھے  اس کا ریٹ سو روپے کلو کو چھو رہا ہے ،افسوس ہوتا ہے ایسے تجزیہ کاروں اور ماہرین پر جو چند پیسے ریٹ کے نیچے آنے کو حکومت کی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں، ڈالر ایک سو روپے کا تھا  جو158سے 160روپے کے درمیان جھول رہا ہے،اب جب کبھی  چند پیسے روپے کی قدر بڑھتی ہے تو چنگاڑتی خبریں سمع خراشی کرنے لگتی ہیں ۔صارفین کو بے خبر اور احمق سمجھا جا رہا ہے مگر جس نے چیز خریدنی ہوتی ہے اس کو سب علم ہو تا ہے ،  بے حسوںکو زرا سا بھی احساس نہیں ہے کہ وہ دراصل ایک ایسا غصہ لوگوں میں بھر رہے ہیں  جس کا انجام سوائے بد نظمی اور افراتفری ہو گا ،  چونکہ سیاست گرم ہو چکی ہے ،کرونا کے دوبارہ  عو د کر آنے کی وجہ سے اب ا س آڑ وہ  لینا چاہ رہے جن کا کام تھا کہ وہ سب سے پہلے لوگوں کی زندگی کو آسان بناتے ،اس پناہ کا مقصد ظاہر ہے کہ  مخالفین  کے ٹیمپو کو توڑنا ہے ورنہ تو سب بازار کھلے ہیں ،معمولات زندگی رواں دواں ہیں ،کسی ایک جلسہ گاہ کی کیا بات کی جائے ،ہر  شہر کی  ہرمارکیٹ،بازار ،کارخانے،اڈے میں جلسہ گاہ جتنے لوگ صرف چندگھنٹے کے لئے نہیں بلکہ ہمہ وقت ہوتے ہیں ،اس لئے یہ دلیل خود اپنی نفی ہے کہ جلسوں سے کرونا بڑھ رہا ہے ، یہ دلیل اس وقت مانی جا سکتی ہے جب کہا جائے جہاں جہاں بھی ہجوم ہے وہ بیماری کو بڑھا رہا ہے ،اس لئے سب ہی کو بند ہونا چاہئے  ،اس پراپیگنڈا کو جس قدر بڑھایاجائے گا  یہ اتنا ہی وکالت کرنے والوں کے لئے ضرر رساںہو گا،مہنگائی ایسا جن ہے جو باہر آچکا ہے اور اس کی روک تھام کرنا کم از کم ان کے بس کی بات نہیں جو ہر حکومت کے سیٹ آپ میں ’فٹ‘ بیٹھ جاتے ہیں ،اور وہ لمحہ بہت دلچسپ ہوتا ہے جب وہ سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں ،جبکہ وہی تھے جو اس وقت پالیسی ساز تھے ،مہنگائی جس سطح پر جا چکی ہے خاک نشیں سمجھتا ہے کہ  معاملہ بوئلنگ پوائننٹ کے قریب ہے ،نت نئے تنازعے اور ایسے ایشوز کو چھیڑنے سے جن کا نہ کوئی سر پیر ہے اور نہ ان سے بھوکے لوگوں کوکوئی سروکار،بہت ذیادہ وقت نہیں خریدا جا سکتا ، اصل بات جلد ہی سمجھ میں بھی آ جاتی ہے ، درست طرز عمل یہ ہے کہ  بھوک اور اور غربت کا شکار لوگوں کی زندگی کو بچانے کی کوشش کی جائے ،ورنہ مخالف تو بس پیدا شدہ موحول سے فائدہ اٹھانے ہی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں ،یہ ان کا کام ہے ،تاہم  اگر تھوڑی سی گردن موڑ کر پیچھے کی جانب دیکھا جائے تو  معلوم ہو جاتا ہے کہ جو اس وقت ڈور تھامے ہوئے ہیں ،انہوں نے ماضی قریب میں اس سے کچھ مختلف کیا تھا ؟ ہر گز نہیں،ابھی تو اس پر تاریخ کا فیصلہ صادر ہونا باقی ہے ،مہنگائی بڑھنے کی رفتار اگر اسی طرح رہی اور اس پر قابو نہ کیا گیا تو صورتحال قابو سے باہر چلی جائے گی ،بہت ہی تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،اگر منڈی میں کوئی چیز تیس سے چالیس روپے کلو میں پڑ رہی ہے وہ حتمی صارف تک  جاتے ہوئے100روپے کلو کیسے ہو جاتی ہے؟ اس کا جواب لینے کے لئے کسی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی کی خدمات لینے کی ضرورت نہیں ہے ،یہ سامنے  موجود ہے ،مگر اس زنجیر کو ٹھیک کرنے کے لئے جس عزم کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے جہاں ڈنڈ اچلنا چاہئے وہاں زبان گنگ ہو جاتی ہے اور جہاں زبان کو قابو میںرکھنا ہوتا ہے قینچی کی طرح چلتی رہے تو وہی حالات ہوں گے جن کا سامنا کیا جا رہا ہے ،یوں تو دن بھر کامیابیوں اور حکمت عملیوں کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں مگر ہر گذرتا دن ناکامی کے تاثر کو گہرا کرتا چلا جا رہا ہے ،عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ماہر معیشت بارہا کہہ چکے ہیں کہ اکانومی بیٹھ گئی ہے ،مزید کام نہیں چل سکتا ،ڈیٹ کی بھاری پے منٹ،کرونا اور دوسرے مسائل تقاضا کر رہے ہیں کہ منی بجٹ لا کر مذید ٹیکسیشن کی جائے ،آئی ایم ایف بھی رام نہیں ہو رہا ہے ،سٹیل ملز ملازمین کی برطرفی اور اس جیسے دیگر غیر مقبول فیصلے دراصل پروگرام کو بحال کرانے کی ہی کوشش ہیں،مگر جنوری کے بعد امریکن ایڈ منسٹریشن کی تبدیلی کے بعد بہت سی سوچ بدلنے والی ہے ،اس بدلائو کو سمجھا جا رہا ہو گا 
اور اس پر کوئی حکمت عملی بھی بنائی گئی ہو گی،ملک میں جو منظر اور پس منظر موجود ہے اس میں جو بھی سیکٹر وائز حکمت عملی  ہو اس پر موثر عمل کرانے کا انتطام کرنے کی اشد ضرورت ہے ،امن وسکون اس کا لازمہ ہے  اور اس کو برقرار رکھنا دانش مندی ہے ،مگر  یہ کام کرئے گا کون؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...