روحانیت کیا ہے ؟

Dec 01, 2021

ستمبر میں جی آر اعوان کی ایک تحریر بعنوان ’’معجزے، کرشمے، کرامات اور حیرت انگیز کمالات‘‘ سنڈے میگزین میں شائع ہوئی۔ انھوں نے لکھا ’’ عاملوں کے ساتھ نشست و برخاست اور میل جول میرا محبوب مشغلہ رہا ہے‘‘ چوں کہ یہ ’’مشغلہ‘‘ میرا بھی رہا ہے، اس لیے اعوان صاحب کی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے اپنے مرحوم روحانی معالج دوست سلطان محمود آشفتہ کی یاد آ گئی۔ آشفتہ صاحب روحانی معالج ہی نہ تھے وہ پنجابی نظم کے بے مثل اور نمائندہ شاعر تھے۔ شاعری کے علاوہ انھوں نے فلمی کہانیاں مکالمے اور گیت بھی لکھے۔ پنجابی کے علاوہ اردو فلموں کے گیت بھی لکھے۔ ان کی بعض فلمیں سُپر ہٹ ہوئیں۔ جاپانی گڈی، لاٹری، ویر پیارا، دیس میرا جی داراں دا، انکی مقبول فلمیں تھیں۔ 1995ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انھوں نے جو نظمیں لکھیں، ان کا انگریزی ترجمہ صفدر میر نے کیا اور اپنی کتاب Seventeen Days of September War میں شامل کیا۔ سلطان محمود آشفتہ سے میری دوستی، شاعری اور ادب کے حوالے سے تھی۔ ان کے روحانی عملیات یا کمالات سے مجھے کوئی سروکار نہ تھا۔ نہ اس موضوع پر کبھی ان سے گفتگو ہوئی۔ ویسے بھی میرا ان عملیات پر اعتقاد نہیں۔ 
آشفتہ صاحب 1978ء میں بسلسلہ روزگار سعودی عرب گئے۔ آٹھ برس بعد واپس آ گئے۔ تصوف کی طرف رجحان ان کا پہلے ہی تھا مگر پاکستان آ کر رجحان زیادہ ہو گیا اوراپنے آپ کو روحانی رہنمائی اور روحانی علاج کیلئے وقف کر دیا۔ ابتدا میں اپنے آبائی مکان سنت نگر میں مقیم رہے۔ یہیں سے میری ان سے ملاقاتوں کا آغاز ہوا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔ آبائی علاقے سے وہ اپنے ذاتی مکان مسلم ٹاؤن شفٹ ہو گئے۔ مسلم ٹاؤن جہاں ان کا مکان تھا، وہ بند گلی تھی۔ انھوں نے گلی کا نام ’’آستانہ سٹریٹ‘‘ اور مکان کے باہر ’’آستانہ توحید‘‘ کی پلیٹ لگوائی۔ ڈرائینگ روم کے ساتھ ایک چھوٹے کمرے میں فرشی نشست، جہاں وہ آنے والے لوگوں کے مسائل سنتے۔ کمرے کا ماحول بھی ’’روحانی‘‘ تھا۔ سبز پردے، اگربتیاں اور دیوار پر مری والے بابا لعل شاہ قلندر کی تصویر آویزاں تھی، جنھیں وہ اپنا مرشد قرار دیتے۔ آشفتہ صاحب کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھیں اپنی طویل نظمیں ازبر تھیں۔ کاغذ سے دیکھ کر نہیں پڑھتے تھے۔ پڑھنے کا انداز بھی دلنشیں تھا۔ انھوں نے ایک بار پی ٹی وی کے ضیا محی الدین شو میںحصہ لیا اور ’’روحوں کو حاضر کرنے‘‘ کا مظاہرہ کیا۔ 
جی آر اعوان نے لکھا کہ عامل مستری عزیز کسی سے کچھ طلب نہیں کرتا تھا۔ مگر آشفتہ صاحب طلب کرتے تھے۔ اپنی ایک پروفیسر دوست کا تعارف میں آشفتہ صاحب سے کرا چکا تھا۔ ایک روز وہ میرے آفس آئی اور آشفتہ صاحب کا فون نمبر طلب کیا۔ ان دنوں لینڈ لائن نمبر ہی تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی، میرا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ آشفتہ صاحب کوئی ایسا ’’عمل‘‘ کریں کہ وہ ایسا نہ کر سکے۔ میں نے آشفتہ صاحب کو فون کیا اور پروفیسر صاحبہ کو ایڈریس لکھا دیا۔ اگلے روز خاتون پروفیسر نے مجھے بتایا کہ وہ آشفتہ صاحب سے مل چکی ہے، آپکے فون کے باوجود انھوں نے مجھ سے پانچ سو روپے لیے۔ مجھے اس بات کا افسوس ہوا، فون پر ان سے گِلہ کیا تو کہنے لگے۔ ’’ اس رقم سے میں ٹین پرسنٹ علیحدہ کرتا ہوں۔ جو رقم جمع ہوتی ہے، اس سے ہر جمعرات کو بریانی کی دیگ پکوا کر حضرت داتا علی ہجویریؒ کی درگاہ کے باہر غریبوں میں تقسیم کر دیتا ہوں‘‘ خاتون پروفیسر کا کام پھر بھی نہ ہوا۔ اسکے شوہر نے دوسری شادی کر لی۔ ایک روز اچانک انکے انتقال کی خبر ملی۔ حالاں کہ دو روز قبل میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ مسلم ٹاؤن جب میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو ان کی میت قریبی مسجد میں نماز جنازہ کیلئے لے جائی جا چکی تھی۔ وہاں پہنچ پر میں نے آشفتہ صاحب کا چہرہ دیکھا تو وہ سیاہی مائل ہو چکا تھا۔ حالاں کہ ان کا رنگ گندمی تھا۔ ان کے قریبی عزیز سے میں نے دریافت کیا تو اس کا کہنا تھا۔ آشفتہ صاحب رات اپنے کسی ’’کلائنٹ‘‘ کیلئے کالے جادو کا ’’عمل‘‘ کر رہے تھے کہ اسی دوران خالق حقیقی سے جا ملے۔ سلطان محمود آشفتہ کی زندگی میں انکی شاعری یا روحانی تحریروں پر کوئی کتاب شائع نہ ہو سکی۔ البتہ ان کی وفات کے بعد آشفتہ صاحب کے ایک بیوروکریٹ صاحبزادے نے ان کا شعری مجموعہ اور روحانیت کے بارے میں تحریریں مرتب کر کے کتابی صورت میں شائع کرائیں۔ شعری مجموعہ ’آشفتہ دیاں نظماں‘ 1999ء اور ’روحانیت کیا ہے؟‘ کتاب 1996ء میں چھپی۔ اس کتاب میں روحانیت کے عملی پہلو اور روحانی مشقوں کے متعلق کچھ علمی مباحث ہیں۔ آشفتہ صاحب اس کتاب میں لکھتے ہیں ’’جہاں میں نے تصوف اسلامی کا مطالعہ کیا ہے، اسلامی علوم روحانی مشقیں کی ہیں، چلے کاٹے ھیں۔ علم الاعداد، طب اور ادب کے دقتر کھنگالے ہیں، وہاں تبت کے لاموں افریقہ، آسٹریلیا اور جنوبی امریکا کے قدیم قبائل، بلیک میجک، گولڈن ڈان وغیرہ سے متعلق جتنا لٹریچر مل سکا، پڑھا ہے‘‘ ۔ آئندہ کالم میں انکے مرشد بابا لعل شاہ قلندر کے بارے میں تفصیل بیان کروں گا۔

مزیدخبریں