اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے کامل ،مکمل اور آخری ضابطہ ہے۔یہ اسلام ہی کی خصوصیت ہے کہ اس نے ضابطہ کیلئے قرآن مجید اور اُسکی عملی شکل سیّد دو عالم محسن انسانیت ؐ کی ہمیں عطا فرمائی ۔علمی قرآن کتابی شکل میں اور عملی قرآن حضور اقدس ؐ کی شکل مبارک ہے۔کسی بھی نظام زندگی کی اصل آزمائش اس کے معاشرتی نظام میں ہوتی ہے جس سے کسی نظام کے مقام اور مرتبہ کا تعین کیا جاتا ہے ۔معاشرتی نظام کے ایک اہم پہلو کا تعلق پڑوس سے ہے ۔دراصل پوری انسانی سوسائٹی پڑوسیوں پر مشتمل ہے ۔یہ ایک ایسی زنجیر ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی سے پیوست ہوتی ہے ۔اس طرح دنیا کا ہر شخص ایک دوسرے کا پڑوسی ہے۔اس سلسلہ میں پڑوسی ایک وسیع ہمہ گیر اور مئوثر کردار ادا کرتا ہے۔اسلام کے پیش نظر ایک اعلیٰ اور پاکیزہ انسانی معاشرہ کی تشکیل ہے اسلئے اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے پڑوسیوں کے مرتبہ کو بہت ہی اہمیت دی گئی ہے۔اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے باہمی تعلق اور محبت ایک جسم کی مانند ہوتی ہے کہ اگر ایک عضو بیمار پڑتا ہے تو پورا جسم اسکی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ مسلمانوں کا باہمی تعلق اسطرح ہے جس طرح ایک اینٹ دوسری اینٹ پر لگنے سے عمارت مضبوط ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں گھروںیا با لفاظ دیگر پڑوسیوں کا مقام بھی بلڈنگ میں لگی ہوئی اینٹوں کی طرح ہے جو ہمسائیگی کے رشتوں کو مستحکم کرتی ہیں ۔اسلامی نظام معاشرت میں پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق قرآن کریم کے سورۃالنساء آیت نمبر 36میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ:۔"اور تم اللہ ہی کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور والدین ،قرابت داروں ،مسکینوں ،رشتہ دار ہمسایوں ،غیر رشتہ دار ہمسایوں ،ہم نشین،مسافر اور اپنے لونڈی ،ملازموں کے ساتھ احسان کا برتائو کرو۔اللہ تعالیٰ اترانے والوں ،بڑائی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا۔"آیت مذکورہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔خالق کائنات نے نے جہاں مذکورہ آیت کریمہ کے اس حصہ میں اپنی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کاحکم دیا ہے وہاں اس کے متصل ہی آیت کریمہ کے دوسرے حصہ میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور اُن کے حقوق ادا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے ۔پڑوسی رشتہ دار ،اجنبی ہمسایہ،اور پہلو کے ساتھی سے حسن سلوک کا معاملہ رکھواور اس حکم سے روگردانی کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے ناراضگی اور ناپسند دیدگی کا اظہار بھی فرمایا ہے۔
عربی لغت میں جار کے معنی پڑوسی کے ہیں یعنی جس کا مسکن یعنی رہائش آپ کے قریب ہو وہ آپ کا جار یا پڑوسی ہو گا جس کا حق عقلاً و شرعاً بڑا سمجھا گیا ہے ۔جوار کے معنی بھی پڑوسی اور حفاظت ہیں ۔اگر کسی کو حفاظت دی جائے تو وہ اُس کے جوار یعنی حفاظت میں ہوگا۔حسن جوار یعنی اچھی ہمسائیگی کو اسلامی معاشرہ میں بہت اہمیت دی گئی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ مشکل وقت میں پڑوسی کی مدد کی جائے تاکہ اپنی مشکل حل کرانے کیلئے اُسے دور نہ جانا پڑے۔قرآن کریم میں پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے حضور ؐ نے اُ س کی وضاحت یوں فرمائی ہے ۔حضور ؐ نے تین دفعہ فرمایا کہ"خدا کی قسم وہ شخص صاحب ایمان نہیں ۔"خدا کی قسم وہ شخص صاحب ایمان نہیں ۔"خدا کی قسم وہ شخص صاحب ایمان نہیں ۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ کون ؟توآپ ؐ نے فرمایا"جس کا پڑوسی اُس کی ایذا رسانیوں سے محفوظ نہ ہو"پڑوسیو ں کی عزت و تکریم کرنی چاہئے۔حضور ؐ نے فرمایا "تم میں سے کوئی شخص صاحب ایمان نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے پڑوسی یا بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جسے وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔حضور اقدس ؐ کے ارشاد گرامی سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ایمان اور اچھی ہمسائیگی کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے یعنی اگر پڑوسی کے حقوق میں کوتاہی ہوئی تو ایمان میں کمزوری واقع ہوجائیگی۔
ایمان کے درجوں کی طرح اچھی ہمسائیگی کے بھی مختلف درجے ہوتے ہیں ۔سب سے اعلیٰ درجہ تو یہ ہے کہ اپنے پڑوسی کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے ۔تکلیف میں اُس کی مدد کی جائے اور اُس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اگر پڑوسی کا ہر طرح سے خیال نہ رکھ سکے تو کم از کم اُس کی دل آزاری نہ کرے اور اُسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔حضور سرور کائنات ؐ کا تین بار قسم اُٹھا کر فرمانا کہ اُس وقت تک ایک شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اُ س کا پڑوسی اُسکی ایذا رسانی سے محفوظ نہ ہو ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرب الٰہی کے بلند مقام تک پہنچنے کیلئے اچھی ہمسائیگی کی کس قدر اہمیت اور ضرورت ہے۔حدیث شریف میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا "جبریل ؑ مجھے ہمیشہ ہمسایہ کی نسبت تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ ہمسایہ کو وارث بنا دیں گے ـ"۔ایک مومن کیلئے اعمال صالح کی بے حد ضرورت ہوتی ہے لیکن جنت کا صحیح معنوں میں حقدار بننے کیلئے اپنے پڑوسی کے حقوق ادا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔معاشرہ میں رشتہ داروں کے بعد ہمسایہ کے تعلقات کو زیادہ اہمیت اسلئے بھی حاصل ہے کہ ہمسائے بعض اوقات قربت کی وجہ سے رشتہ داروں سے بھی پہلے مدد کو پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح معاشرتی تعلقات میں سے سب سے پہلے ہمسایہ والوں سے واسطہ پڑتا ہے اسی لئے اسلام نے ہمسائیگی کو بہت تقویت دی ہے کیونکہ اس سے انتہائی قریب کا بھائی چارہ پیدا ہو جاتا ہے۔بعض لوگ خود ساختہ معیار قائم کر کے فخر و غرور کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو ہمسایوں سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی اسلامی معاشرتی نظام میں نفی کی گئی ہے۔
امام غزالی ؒ اپنی کتاب احیاء العلوم الدین میں حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے صحابہ ؓ سے پوچھا ! تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا اللہ اور اُس کے رسول ؐ ہی بہتر جانتے ہیں ۔آپ ؐ نے فرمایا "پڑوسی کے حقوق یہ ہیں کہ اگر وہ تم سے مدد کی درخواست کرے تو اُس کی مدد کرو۔قرض مانگے تو قرض دو۔محتاج ہو تو اچھا سلوک کرو۔بیمار ہو تو عیادت کرو۔مر جائے تو جنازے کے ساتھ جائو۔خوشی کے موقعہ پر مبارکباد اور غم کی حالت میں تعزیت کیلئے جائو۔اپنے گھر کی دیوار اتنی بلند نہ کرو کہ اس سے ہوا رُکے۔نئے پھل خریدو تو اُسے بھی بھیجو اور اگر نہیں بھیج سکتے تو پوشیدہ رکھو اور اپنے بچوں کو پھل ہاتھ میں لئے باہر نہ جانے دو کیونکہ تمہارے بچوں کے ہاتھ میں پھل دیکھ کر تمہارے پڑوسیوں کے بچے رنجیدہ ہو ں گے۔
اسلامی معاشرتی نظام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی عمل یا تصور انسانی فطرت کے خلاف نہیں۔حقوق ہمسائیگی کی اگر مکمل طور پر پاسداری کی جائے تو غیر مسلم پڑوسی بھی اس خاموش تبلیغ سے اسلام کے حلقہ بگوش ہونے کیلئے تیار ہو جائیں گے