فیفا ورلڈ کپ : مغرب کا منافقانہ طرزِ عمل

فٹبال کا22واں عالمی کپ اس وقت قطر کے شہر دوحہ میںکھیلا جا رہا ہے۔ کھیلوں کی دنیا میں فٹبال کو سب سے نمایاں دررجہ حاصل ہے اور یہ کھیل دنیا کا مقبول ترین کھیل تصور کیا جاتاہے۔ دنیا بھر سے لوگوں کی اس کھیل سے ایک جذباتی وابستگی ہے جس کی وجہ سے ہر کسی کی نظر فٹبال کے میچزپر ہوتی ہے۔ ورلڈ کپ تو سب سے بڑامقابلہ ہے جس کا انعقاد فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کی زیرنگرانی ہوتاہے۔ دنیا میں معروف فٹبال کلبز کے میچز میںبھی لوگوں کی دلچسپی قابلِ دید ہوتی ہے اور اس کھیل کو بجاطور پر سب سے مہنگا کھیل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ کھلاڑیوں کے علاوہ اس کھیل سے منسلک ہر شعبہ پیسے لگانے اور کمانے میں مصروف ہے۔ فٹبال پر بھی مجموعی طورپر مغربی ممالک کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے فیفا کی تنظیم بھی انہی مغربی ممالک کے زیراثر ہے۔ ورلڈ کپ کے انعقاد کیلئے بھی ایک بھرپور مہم چلتی ہے اور دنیاکے بڑے بڑے امیر ممالک کی بھرپور خواہش ہوتی ہے کہ یہ مقابلے ان کے ملک میں ہوں۔ کسی بھی ملک کو ورلڈ کپ کی میزبانی کیلئے چننا بھی ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتاہے جس کیلئے بھرپور مہم چلائی جاتی ہے۔ میزبان کا چنائو کم از کم آٹھ سے دس سال پہلے کرلیا جاتاہے تاکہ مطلوبہ سہولیات کی فراہمی کیلئے مناسب وقت مل سکے۔ موجودہ ورلڈ کپ کے مقابلے خلیجی اسلامی ملک قطر کے شہر دوحہ میںجاری ہیں۔ اس ورلڈ کپ کیلئے قطر کا چنائوآج سے 12 سال قبل کرلیا گیا تھا۔ جب قطر کا انتخاب ہوا تو سب کیلئے یہ ایک حیران کن فیصلہ تھا کیونکہ آج تک یہ مقابلے کسی مسلمان ملک میں منعقد نہیںہوئے بلکہ اس سے پہلے صرف ایک مرتبہ یہ مقابلے ایشیا میں منعقد ہوئے جب جنوبی کوریا اورجاپان کو مشترکہ طور پر 2002ء میں ان مقابلوں کی میزبانی ملی۔ قطر ایک چھوٹاملک ہے جہاں پر اتنے بڑے ایونٹ کیلئے مطلوبہ سہولیات بھی نہیں تھیں مگر گذشتہ 12 سالوں میں اڑھائی سو ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم خرچ کر کے قطر نے ایک بہترین انفراسٹرکچر کھڑا کر کے دنیاکو حیران کردیا ہے۔
شروع دن سے ہی مغربی ممالک کو ان مقابلوں کیلئے قطر کے انتخاب پر تحفظات تھے اور یہ صرف اپنی اجارہ داری کو درپیش چیلنج کی وجہ سے تھے۔ قطر کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی گئی جس میںسکیورٹی، سہولتوں کے فقدان، موسمی حالات، مقامی تہذیب اورانتظامی صلاحیتوں میںکمی کو بنیاد بنایا گیا۔ قطر نے ہر ممکن کوشش کر کے نہ صرف ان تمام تحفظات کو دور کیا ہے بلکہ دنیا کو حیران بھی کیا ہے۔ دوسری طرف مغربی میڈیا اور کچھ تنظیمیں مسلسل قطر کے خلاف مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اب جبکہ یہ مقابلے شروع بھی ہو چکے ہیںاور ٹورنامنٹ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے یہ مہم پھربھی جار ی ہے اب تو فیفا کے صدر جناب گیانی انفینتینو Giani Infantino کو بھی قطر کے دفاع میںکھل کر سامنے آنا پڑاہے۔ انہوں نے نہ صرف قطر کی حمایت اور بہترین انتظامات پر تعریف کی ہے بلکہ اس مہم کو مغرب کی منافقت قرار دیا ہے باوجود اسکے کہ انکا اپناتعلق بھی یورپی ملک سوئٹزر لینڈسے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قطر کے خلاف یہ مہم نہ صرف بلاجواز ہے بلکہ اس سے یورپ کے دو چہرے سامنے آئے ہیں۔ یورپی ممالک اور تنظیمیں اپنے علاوہ کسی کو بالخصوص قطر جیسے چھوٹے ملک کو آگے آناہی نہیں دینا چاہتے۔ اسکے علاوہ بھی میڈیاکے کچھ لوگ اور کھیلوںسے وابستہ لوگ قطر کے خلاف اس مہم کی مذمت کر رہے ہیں۔ 
قطر کے خلاف جاری اس مہم میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو آگے کیا گیاہے کہ وہاں کام کرنیوالے غیرملکی ورکرز جن کی بڑی تعداد کا تعلق جنوبی ایشیا اورافریقی ممالک سے ہے، کے بنیادی حقوق کا مسئلہ کھڑا کریں۔ ان ورکرز میں سے ایک بڑی تعداد اسی ورلڈ کپ سے منسلک سہولیات کی فراہمی کیلئے گذشتہ کئی سالوںسے قطر میں کام کر رہی ہے۔ ان کیلئے بے سے مسائل کھڑے کردیے گئے حالانکہ خود یورپ کے بہت سے ممالک میں غیرملکی ورکرز کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ قطر نے ان میں سے بہت سارے ایشوز کو حل بھی کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ موسم کاذکربھی عام سننے میں آرہا ہے کہ موسم گرم ہے جو کہ فٹ بال کیلئے موزوں نہیں حالانکہ انتظامیہ نے درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے بہت سے اقدامات کیے ہیں جس سے کھلاڑی اورشائقین مطمئن بھی ہیں ایک بڑا مسئلہ شراب اور بیئر کے آزادانہ استعمال پر پابندی اور ہم جنس پرستوںکی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی کو بنایا جارہا ہے۔ اس بار ے میں قطر کی حکومت نے بھرپور سہولیات فراہم کی ہیں مگر ظاہر ہے ایک اسلامی معاشرہ ہونے کی وجہ سے ان چیزوں کی سرعام اجازت نہیں دی جا سکتی جس کا احترام ہر کسی پر فرض ہے۔ قطر نے بجاطورپر اس میگا ایونٹ کو اپنی تہذیب، تمدن، روایات اور مذہب کی تشہیر کیلئے بھی استعمال کیاہے جو کہ اس کا حق ہے۔ آخر کار اتنا سرمایہ، وقت اورتوانائی خرچ کرنے کے بعد میزبان ملک کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ environment کو اپنے حق میں استعمال کرے۔ مغرب کا یہ طرز عمل افسوسناک ہے جسے یقینی طور پر متعصبانہ بھی قراردیا جا سکتاہے۔

 تمام سنجیدہ حلقوں کی جانب سے نہ صرف اس مہم کی مذمت کی جا رہی ہے بلکہ قطر کی جانب سے اس ورلڈ کپ کیلئے کیے جانے والے اقدامات کو سراہا بھی جا رہا ہے۔ یہ ورلڈ کپ صرف فٹبال کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ مکمل تفریحی ماحول بھی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ ایونٹ دو حوالوں سے اہم ہے۔ ایک تو اس مرتبہ پھر فٹبال ورلڈ کپ میں پاکستان میں بنایا جانے والا فٹبال استعمال کیا جا رہا ہے دوسرا یہ کہ اس ورلڈ کپ کیلئے سکیورٹی کے وسیع اورجامع انتظامات کی ذمہ داری بھی پاکستان آرمی کو سونپی گئی ہے جو ایک اعزاز سے کم نہیں۔

ای پیپر دی نیشن