سیاست نہیں انداز سیاست دفن کریں!!!

محترمہ مریم نواز شریف نے سابق وزیراعظم عمران خان کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کی سیاست، آپ کے ہاتھ، آنکھیں اور کانوں کی رخصتی کے ساتھ دفن ہو گئی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو مبارکباد کیلئے ٹویٹ کی جس میں انہوں نے قائداعظم کی تقریر کا اقتباس شامل کیا جس کے مطابق قائداعظم نے کہا کہ پالیسی معاملات طے کرنا سویلین کا کام ہے، یہ فوج کی ذمہ داری ہے کہ آپ وہی کام کریں جو آپ کے سپرد کیا گیا ہو۔
عمران خان کی سیاست دفن ہوتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ کئی دہائیوں کے سیاسی سفر، سیاسی حادثات، شواہد اور واقعات کے بعد آج بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیشہ سیاسی حریفوں کی سیاست کو دفن کرنے خواہشمند رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آج تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ یہ ایک غیر حقیقی سوچ ہے۔ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ مخالفین کی سیاست کو دفن کرنا چاہیے یا انداز سیاست کو دفن کرنا زیادہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ نہ ہم بہتر راستہ اختیار کر سکے نہ ہم بہتر فیصلہ کر سکے۔ ہم سیاسی مخالفین کو دفن کرنے کے شوق میں وقت، سرمایہ اور قیمتی جانوں کو بھی قربان کرتے ہیں لیکن سبق حاصل نہیں کرتے۔ محترمہ مریم نواز شریف نے بھی وہی غلطی دہرائی ہے امکان ہے کہ انہیں احساس نہیں ہو گا کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں ان کے والد میاں نواز شریف کو ہی دیکھ لیں ایک سے زیادہ ادوار میں ان کی سیاست ختم ہونے کی باتیں ہوتی رہیں لیکن ان کی سیاست آج بھی چل رہی ہے۔ وہ غلط ہے یا درست یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ان کی سیاست آج بھی حقیقت ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کو ختم کرنے کے دعوے بھی ہوتے رہے لیکن آج بھی ان کے نام پر ووٹ پڑتے ہیں، اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست ختم کرنے کے دعوے ہوئے لیکن پاکستانی سیاست پر بینظیر بھٹو کا اثر آج بھی نظر آتا ہے۔ ان حوالوں کے باوجود آج بھی ہم سیاست دفن کرنے کے خواہشمند ہیں۔ بالکل اسی طرح عمران خان بھی نواز شریف کی سیاست دفن کرنے کی کوششوں میں لگے رہے اور ناکام بھی ہوئے۔ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ آپ اچھے ہیں یا برے، ناکام ہیں یا کامیاب سیاست دان ہیں دونوں صورتوں میں آپ کے چاہنے والے موجود ہوتے ہیں اور وہ ہر حال میں آپ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ اسی طرح آپ لاکھ کسی کو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو سے بدظن کرنے کی کوشش کریں وہ نہیں ہوں گے۔ کئی دہائیاں گذرنے کے باوجود آج بھی "بھٹو" کے نام پر ووٹ پڑتا ہے یعنی ان کی سیاست دفن نہیں ہو سکی تو پھر عمران خان کی سیاست کیسے دفن ہو سکتی ہے۔ عمران خان نے بھی نوجوانوں کے ایک بڑے طبقے کو اپنی طرف کھینچا ہے اور یہ طبقہ دیوانگی کی حد تک عمران خان پر اعتماد کرتا ہے آپ کیسے ان کا اعتماد ختم کر سکتے ہیں یاں یہ ہو سکتا ہے کہ تعداد کم ہو جائے لیکن اس کے حمایتی موجود تو رہیں گے، یہ یاد رکھیں چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ پھر کیا کریں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ مخالف سیاسی رہنماؤں کی سیاست کو دفن کرنے کے بجائے ان کے نامناسب انداز سیاست کو دفن کرنے پر توجہ دی جائے کیونکہ ہر شخص میں کچھ خامیاں ہوتی ہیں اور ہر دور کے اعتبار سے ہر شخص کے کچھ فیصلے اور کام کرنے کا انداز ضرور غلط ہوتا ہے جس سے ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے، غلط فیصلوں یا نامناسب انداز سیاست کا سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم شدت پسندی سے کام لیتے ہوئے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔ عمران خان پوری کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکے تو مریم نواز شریف یا ان کے ساتھی بھی اس مشن میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ یوں یہ صرف اور صرف وقت کا ضیاع اور بے کار کی مشق ہے۔ جس کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اگر اب مسلم لیگ نون اس ناکام تجربے کو دہرائے گی تو اس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
خبر ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اپنی اور صوبائی حکومت کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے۔  مسرت جمشید چیمہ کو شوکاز نوٹس اداروں کیخلاف متنازع بیان پرجاری کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے مسرت جمشید چیمہ سے متنازع بیان پروضاحت طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کیخلاف بیان بازی حکومت پنجاب کی پالیسی کے خلاف ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے اچھا کیا ہے۔ سیاسی شخصیات کو بولتے ہوئے کم از کم یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہ ریاستی اداروں کے حوالے سے کیا بات کر رہے ہیں۔ اداروں کے خلاف بیانات سے ناصرف عوام میں اشتعال پیدا ہوتا ہے بلکہ دشمن ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی بھی پوری کوشش کرتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے ووٹرز اپنے قائدین کی محبت میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے یا وہ دیکھنا نہیں چاہتے یا دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کچھ بھی کہیں اس لیے وہ اکثر غلط فیصلہ کرتے ہیں جب کہ سیاسی قائدین سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے معصوم حمایتیوں کی معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کو بھی یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے گذشتہ چند ماہ کے دوران جتنے بھی سیاسی فیصلے کیے ہیں ان سب سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ ان حالات میں وہ عام آدمی کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بیرونی سازش یا مداخلت یا امریکہ کی مخالفت تک کے بیانیے سے بھی پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت پیچھے ہٹ رہی ہے۔ عمران خان کے یو ٹرن کو دیکھیں یا فواد چودھری کی ملاقات یا پھر ذلفی بخاری کے بیانات پر نظر دوڑائیں ہر جگہ یو ٹرن نظر آتا ہے جہاں یہ حالات ہوں وہاں ریاستی اداروں کے حوالے سے متنازع بیانات پر کیسے خاموش رہا جا سکتا ہے۔ مسرت جمشید چیمہ ہوں یا کوئی اور، پی ٹی آئی کے لوگ ہوں یا کسی بھی اور سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوں سب کو اپنی سیاست کے لیے ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ سیاسی ناکامی کو قبول کرتے ہوئے واپسی کی کوشش ہی جمہوریت کا حسن ہے نا کہ ریاستی اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش پر وقت اور سرمایہ خرچ کیا جائے۔ اس طرز سیاست کو دفن کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...