عمران خان جو آج باجوہ کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں، تین سالہ توسیع کے بعد حال ہی میں ایک اور توسیع دینے کی پیشکش کر چکے تھے۔ خود فرمایا کہ ہم نے باجوہ صاحب سے کہا کہ آپ اپوزیشن کے بجائے ہم سے توسیع لے لیں۔ کسی نے خان صاحب سے یہ پوچھنے کی جرأت پتہ نہیں کیوں نہیں کی کہ آپ بقول خود اپنے میر جعفر کو توسیع کیوں دینا چاہتے تھے۔
بہرحال، یہ توسیع نہیں ملی، وہ ریٹائرڈ ہو گئے اور جنرل عاصم منیر کوکمان کی چھڑی دے کر رخصت ہوئے۔ اس بیچ کہانیاں بہت ہیں کہ کس طرح عمران خان سمیت تین اہم شخصیات نے نئے سالار کا راستہ روکنے کی آخر دم تک کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ یعنی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ جسے جو مقام ملنا ہوتا ہے مل کر رہتا ہے، مدعی کے لاکھ برا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا ثابت تو یہ بھی ہو گیا کہ جب کسی کے برے دن آ جائیں تو ٹالے نہیں ٹلتے، بھلے کتنے ہی جادو ٹونے کر لے، سائفر گھڑ لے اور دھرنے دھر لے…رہا چھ سال کا سود و زیاں تو اس کا کیا ذکر کریں، جو ہے، سب کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہے۔
__________
جیت معرکے ہی کے دوران ہو، ضروری تو نہیں۔ کبھی معرکہ ختم ہوئے برسوں گزر جاتے ہیں، جیت تب ملتی ہے۔ نواز شریف کا معاملہ ہی لے لو۔ پانچ سال پہلے انہوں نے معرکہ آرائی کی اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا۔ پھر یہ معرکہ ادھورا رہ گیا۔ انہیں سات اور دس سال قید کی سزا ہوئی، جیل ڈال دئیے گئے ، اس دوران انہیں زہر دے کر مارنے کی کوشش ہوئی۔ کس نے کی، بتانے کی ضرورت نہیں، جو بہت شور کرتا ہے، اسی نے کی لیکن پھر کسی بڑے کو علم ہو گیا، اس نے سازش ناکام بنا دی اور انہیں لندن بھجوانے میں سہولت کاری کر کے ان کی جان بچائی اور شاید میر جعفر کی تہمت پانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ غصہ اس بات کا اس شور مچانے والے کو بہت تھا، بہت ہے اور بہت رہے گا۔
خیر، پانچ سال گزر گئے، عساکر پاکستان نے اعتراف کیا کہ وہ سیاست میں مداخلت کرتے رہے، اب سے نہیں کریں گے، غیر سیاسی ہو جائیں گے، صرف اپنے آئینی فرائض پر توجہ دیں گے۔ نواز شریف کے نعرے ووٹ کو عزت دو کا یہی تو مطلب تھا، پورا ہوا، پانچ سال کی تاخیر سے ہی سہی۔
فتح نواز شریف کو ملی، بہت زیادہ شور مچانے والے کو نہیں۔
بہت زیادہ شور مچانے والے کا گلا اب بیٹھ چکا ہے، روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی! پوری طرح نہیں بیٹھی تو بیٹھ جائے گی۔
__________
مفتی تقی عثمانی نے کراچی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فحاشی اور عریانی کے خلاف جدجہد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بہت برحق بات کی۔ قرآن پاک اور احادیث رسول میں فحاشی اور عریانی کیخلاف بہت سخت احکامات ہیں۔ یہ وہ لعنت ہے جو معاشرے برباد کر دیتی ہے۔
لیکن قرآن و حدیث میں فحاشی اور عریانی سے بھی زیادہ ہر طرح کے ظلم ، حق تلفی، بچوں عورتوں کے قتل و غارت، دولت جمع کرنے، غریبوں کو محروم رکھنے کے خلاف باتیں کی گئی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی عالم دین، کوئی بھی دینی جماعت اس پر بات نہیں کرتی، صرف فحاشی کا مسئلہ اٹھا ہے۔ خدا جانے کیا راز ہے۔
__________
اذیت رسانی کا واقعہ ہے۔ کتنے بے شمار ملازم بچے مالکان کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے‘ کسی ایک کو بھی سزا ملی؟ یہ پاکستان ہے پیارے‘ یہاں سزا مجرم کو نہیں‘ غریب کو ملتی ہے۔ اس واقعے سے دو روز پہلے کراچی میں ایک بارہ سالہ ملازم لڑکے کو ایک عورت نے چوری کے شبہ میں تشدد ہی نہیں‘ حیوانیت کا نشانہ بھی بنایا۔ اپنے بدمعاش رشتہ داروں سے اس کے ساتھ جبری زیادتی کرائی۔ پھر جسم کوجگہ جگہ سے بلیڈ اورچاقو کے ساتھ کاٹا اور بالآخر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ واقعہ بہادرآباد میں پیش آیا۔ سفاک مالکن کی عمر 55 سال تھی جو بچے کی لاش ہسپتال میں پھینک کر فرار ہو گئی۔ بعد ازاں سمرین جاوید نامی اس قاتلہ کا سراغ لگا لیا گیا۔
پاکستان میں گھریلو ملازم بچوں کے قتل کی شرح‘ نیٹ پر سرچ کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا بھرمیں سب سے زیادہ ہے اور انصاف کی شرح صفر۔ وجوہات تین ہیں۔ ایک ظالم کا ظلم‘ دوسری ریاست کی جانبداری جس کا پلڑا ظالم کے حق میں ہے اور تیسری غربت۔
ظالم کیوں ظالم ہے؟ فطری اورجبلی شیطنیت کے علاوہ اخلاقی زوال جس میں ایسے ظالموں کے ماں باپ بھی شامل ہیں‘ جن کی تربیت میں انسانیت کا دخل ہی نہیں۔ خاص طور سے وہ نودولتیہ طبقے جو پاکستان بننے کے بعد قسط وار وجود میں آ ئے۔
تربیت کیا چیز ہوتی ہے؟ سرسید احمد خان کا تعلق یو پی کے ایک دولت مند گھرانے سے تھا‘ لیکن یہ ماضی کی اشرافیہ تھی۔ ملاحظہ فرمایئے۔ سرسید احمد خان ابھی لڑکپن میں تھے کہ ایک بار انہوں نے غصے میں آکر گھریلو ملازم کو پیٹ ڈالا۔ ان کی والدہ ماجدہ سعید روح تھیں۔ انہیں پتہ چلا تو سر سید کو گھر سے نکل جانے کا حکم دیا۔ سرسید اپنی خالہ کے گھر چلے گئے۔ تین دن بعد ان کی خالہ انہیں لیکر اپنی بہن کے گھر آئیں اور کہا‘ اب بچے کی خطا معاف کر دو‘ لیکن والدہ نے فرمایا جب تک یہ ہاتھ جوڑ کر ملازم سے معافی نہیں مانگ لیتا‘ کبھی معاف نہیں کروں گی۔ سرسید نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تب معافی ملی۔ ملازم کی دل جوئی کیلئے والدہ نے اسے نقد رقم الگ سے دی۔ گھر کا کوئی ملازم بیمار ہو جاتا تو مرحومہ قیمتی سے قیمتی دوا منگوا کر دیتی۔ سرسید نے اس واقعے کے بعد کبھی کسی ملازم پر سختی نہیں کی۔ ہمیشہ انکے دکھ درد میں ساتھ دیا۔
یہ تربیت ہوتی ہے۔ گھریلو ملازم بچوں کو تو ہونا ہی نہیں چاہئے‘ لیکن ہماری ریاست سال بہ سال ان کی تعداد بڑھاتی جا رہی ہے۔ ریاست کے جملہ وسائل اشرافیہ کیلئے ہیں۔ غریب‘ محروم اور بے بس طبقات کسی سیاسی جماعت یا ادارے کی فہرست ترجیحات میں اپنا وجود تک نہیں رکھتے۔ معلمین اخلاق مبینہ طورپر علمائے دین ہوا کرتے ہیں۔ انہیں فرقہ وارانہ کمائی سے ہی فرصت نہیں۔
_________
نئی کمان
Dec 01, 2022