انتخابات: جمہوریت اور آمریت 

Dec 01, 2022


عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انتخابات اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔مگر انتخابات تو ان ممالک میں بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں جن کا جمہوریت سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں۔ چین اور روس اس کی بہتریں مثال ہیں، ان دونوں ممالک میں جمہوری مرکزیت کا اصول غالب ہے اور صرف ایک سیاسی جماعت کی آمریت قائم ہے۔ سیاسی و معاشی نظریہ بھی ایک ہے، کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریہ کی آبیاری کے لیے صرف کمیونسٹ پارٹی قائم ہے، دیگر نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کی گنجائش موجود ہی نہیں۔ انتخابات کے ذریعہ پارٹی کے اندر ہی مختلف طاقتور حلقے آپس میں ہی مقابلہ کرتے ہیں۔ نچلی سطح سے لے کر مْلک کی اعلی ترین قیادت کے انتخاب تک یہ ہی اصول کار فرما ہے۔ 
چین اور روس میں سیاسی نظام کی اٹھان اور بْنت اس طرح کی ہے کہ ریاست، سیاست، حکومت، اور طاقت کو آپس میں مکس کردیا گیا ہے اور ان کی علیحدہ علیحدہ پہچان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ سیاسی جماعت، حکومت اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر ایک ہی شخص یا افراد فائز ہوتے ہیں۔ چینی راہنما شی جن پنگ چار اہم عہدوں کے مالک ہیں، صدر مملکت، پارٹی ہیڈ یعنی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل، فوج کے اعلی ترین ادارے سینٹرل ملٹری کمیشن کے چیئرمین اور سات رکنی اعلیٰ سطحی پولیٹیکل بیورو کی فیصلہ ساز قائمہ کمیٹی کے سربراہ کا قلمدان بھی ان کے پاس ہے۔ ایسے ممالک میں دکھاوے کے طور پر ہر سطح پر انتخابات ہوتے ہیں، لوگ اپنے اپنے امیدواروں کو ووٹ بھی ڈالتے ہیں، مگر جیت ان کی ہوتی ہے جو طاقت کے مراکز کے نزدیک تر ہوتے ہیں یعنی ان کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی صورت حال ہمسایہ مْلک ایران میں ہے جہاں انتخابات سے قبل امیدواروں کے سیاسی نظریات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے، اور مخصوص لوگوں کو ہی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ کم وبیش اسی طرح کے انتخابات، لاطینی امریکہ، مشرقی یورپ، جنوب مشرقی ایشیاء اور مشرق وسطی کے بہت سے ممالک میں ہوتے ہیں، جہاں یا تو یک جماعتی نظام قائم ہے، یا بادشاہتیں ہیں، یا پھر فوج براہ راست یا پس پردہ رہ کر اپنا بھرپور سیاسی کردار ادا کرتی ہے۔ ان ممالک کا تذکرہ تو بے سود ہے جہاں مطلق العنان بادشاہتیں ہیں یا براہ راست فوجی ڈکٹیٹرز ہیں۔ مگر نچلی سطح پر وہاں بھی انتخابات کا ڈول ڈالا جاتا ہے۔
مگر سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مغربی جمہوری ممالک اور مغربی جمہوریت کے دلدادہ ممالک میں بھی اب انتخابات متنازع ہوچکے ہیں۔ دو ممالک کی مثال لیتے ہیں۔ دنیا کی قدیم آئینی جمہوری ریاست امریکہ میں انتخابی عمل انتہائی متنازع ہوچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دو سال مکمل ہونے کے بعد بھی اپنی انتخابی شکست کو تسلیم نہیں کیا، ان کے نزدیک 2020ء کے صدارتی انتخابات مکمل فراڈ اور دھاندلی زدہ تھے، جن میں ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا گیا۔ ووٹرز کی اکثریت جن کی تعداد دس کروڑ کے قریب تھی، انہوں نے الیکشن کے دن پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالنے کی بجائے اپنا ووٹ پوسٹل بیلٹ کے ذریعہ بھیجا، جس میں دھاندلی کرنا آسان تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ خود 2016ء کا الیکشن جیت کر صدر بنے تھے تو ان کی مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن نے بھی انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے فوری طور پر انکار کردیا تھا۔ گو انہوں نے انتخابی نتائج کو ان الزامات کے بعد مانا کہ گہری ریاست اور روس کی مداخلت کی بنا پر انہیں الیکشن میں ہرایا گیا تھا۔ لامحدود مالی وسائل اور اعلی ترین انتظامات کے باوجود امریکی جمہوری انتخابی نظام ڈانواں ڈول ہے۔ اور انتخابات کی شفافیت پر سوال اْٹھائے جارہے ہیں۔ 
جمہوریت کی ماں سمجھی جانے والی ریاست برطانیہ عظمیٰ ہے، جہاں سے جمہوری اور پارلیمانی سیاست کا سبق پوری دنیا نے سیکھا ہے۔ مگر آج وہاں جمہور یت کا پْل جسے انتخابات کہنا چاہئے ہچکولے کھا رہا ہے۔ حکمران جماعت عام انتخابات کرانے سے گریزاں ہے، کنزرویٹو پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے، اقتدار کے لیے رسہ کشی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ گذشتہ تین ماہ کی قلیل مدت میں تین وزرائے اعظم بدل چکے ہیں، لِز ٹرس برطانیہ کی کئی سو سال کی جمہوری تاریخ میں سب سے کم عرصہ رہنے والی وزیراعظم ہونے کا اعزاز اپنے نام کرچکی ہیں۔ وہ صرف ڈیڑھ ماہ وزارت عظمی پر فائز رہیں۔ برطانیہ میں گذشتہ تین ماہ میں ایک ہی سیاسی جماعت کے تین وزرائے اعظم آچْکے ہیں، اس طرح کے سیاسی عدم استحکام کی مثال برطانوی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صاف لگ رہا ہے کہ حکمران جماعت انتخابات میں شکست کے خوف سے اپنے اقتدار کو طول دے رہی ہے۔ اس وقت عام انتخابات کا آپشن استعمال نہیں کیا جارہا۔ معاشی بدحالی یا ابتری کے اس دور میں کوئی بھی حکمران سیاسی جماعت انتخابات میں کامیابی کی اْمید نہیں کرسکتی۔ 
اسی طرح کی صورت حال کا سامنا پاکستان کے موجودہ سیاسی جمہوری نظام کو بھی ہے۔ تحریک انصاف کے نئے عام انتخابات کے مطالبہ پر حکمران جماعت کا ردعمل مخالفانہ اور مخاصمانہ ہے۔ عجیب مخمصہ ہے کہ موجودہ حکمران جماعت کا اتحاد چند ماہ پہلے جب اپوزیشن میں تھا تو ان کا پہلا اور آخری مطالبہ الیکشن کا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف اقتدار میں تھی اور انتخابات کے مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔ حکومت میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابات اپنی مقررہ مدت پر ہی ہوں گے۔ اب پی ڈی ایم۔ اقتدار میں ہے اور تحریک انصاف اپوزیشن میں رہتے ہوئے انتخابات کا مطالبہ شدو مد سے دہرا رہی ہے، مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ کتنا کھلا تضاد ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوں تو انتخابات ان کا واحد مطالبہ ہوتا ہے اور جب اقتدار میں ہوں تو ان کا واحد انکار انتخابات سے ہوتا ہے۔ 
ترقی پذیر جمہوری ممالک کا ایک اور المیہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کو بیوقوف سمجھتی ہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ اس وقت ان کا سازشی بیانیہ عوام میں مقبول ہے، اور عوام کو بیوقوف بنانے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ جبکہ حکمران اتحاد بھی اس بات کو سمجھتا ہے اور اس کے خیال میں اگر انتخابات خاطر خواہ دیر سے کروائے جائیں تو وہ اس پوزیشن میں آجائیں گے کہ عوام کو بیوقوف بناسکیں۔ کارکردگی کی کوئی بھی بات نہیں کرتا اور نہ ہی کارکردگی کی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت عوام کے دل جیتنا چاہتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت صرف الیکشن جیتنا چاہتی ہے تاکہ اقتدار کے مزے لوٹے۔ 
انتخابات کی حیثیت ایک ریلوے ٹریک کی مانند ہے جس پر جمہوریت کی گاڑی چلتی ہے، ٹریک پرانا بوسیدہ ہوگا تو گاڑی ٹریک سے اُتر جائے گی، کوئی بڑا حادثہ بھی پیش آسکتا ہے۔ ٹریک جدید ہوگا، اس کی بہتر دیکھ بھال ہوگی، تو گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف گامزن رہے گی۔ اس کی مثال یورپ ، جاپان، اور چین میں جدید ترین ٹرین اور ان کے کمپیوٹرائزڈ مقناطیسی ٹریک سے دی جاسکتی ہے جبکہ افریقہ اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں آج بھی نہایت قدیم طرز کا ریلوے نظام ہے جہاں بھاپ سے چلنے والے انجن اور ہاتھ میں لال جھنڈی پکڑے ملازم اپنے ہاتھوں سے کانٹا بدلتے دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابات پر عام لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اور انتخابات کی حرمت اور شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے، جدید انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مغربی طرز انتخاب کی ناکامی کی صورت میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا کوئی متبادل نظام موجود ہے جس سے اسے تبدیل کیا جاسکے، متبادل نظام کے بارے میں آپ بھی سوچیں میں بھی سوچتا ہوں۔ 

مزیدخبریں