میںیہ تو نہیں جانتا کہ برطانیہ سے 76 برس قبل حاصل کئے گئے جمہوری رول ماڈل اور قومی سیاست کا اگلا نقشہ اب کیا ہوگا؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ملک کے نئے حافظ قرآن آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل شمشاد مرزا کی تعیناتیوں کے بعد پاکستان کے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی حالات میں کہاں تک استحکام پیدا ہوگا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ حکومت اور اس میں شامل 13 اتحادی جماعتوں اور حزب اختلاف تحریک انصاف کے مابین جاری ’فوری انتخاب‘ کا معاملہ کس مرحلے میں داخل ہوگا؟ مگر یہ ضرور جانتا ہوں کہ جس روز سے ہمارے مذکورہ انتہائی تجربہ کار جرنیلوں کی اعلیٰ تعیناتی کا اعلان کیا گیا ہے‘ بھارت میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔ بھارتی حکومت اور بھارتی افواج کے جرنیلوں کی نیندیں اس لئے بھی حرام ہوئی ہیں کہ جنرل سید عاصم منیر کی آرمی ایکٹ کے تحت 27 نومبر سے قبل انکی بطور آرمی چیف تعیناتی اور پھر اس تعیناتی سے قبل دو اہم انٹیلی جنس اداروں کی سربراہی وہ اہم ترین اعزازات ہیں جن سے بھارت کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سوگ کا سماں طاری ہو چکا ہے۔ اسی تعیناتی کو بھارتی میڈیا نے موضوع بنا کر افواج پاکستان کیخلاف اب ہرزہ سرائی کا آغاز کر دیا ہے جسے مہذب دنیا ایک شکست خوردہ عمل قرار دے رہی ہے۔
افواج پاکستان کی نئی عسکری قیادت کے بارے میں قوم کیا سوچ رکھتی ہے‘ نئی تعیناتیوں سے ملکی سیاسی صورتحال پر کس طرح کے اثرات مرتب ہونگے؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کے جواب کا ہر محب وطن پاکستانی منتظر ہے۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ نئی تقرریوں کے حوالے سے آخر کس اہم شخصیت سے بات چیت کی جائے کہ اگلے روز پاکستان مسلم لیگ (ضیائ) کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر اعجازالحق کے دوبارہ لندن آنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ اعجازالحق چند روز کیلئے فوری طور پر دوبارہ لندن آئے کہ ان کا یہ نجی دورہ اس وقت نامکمل رہ گیا تھا جب عمران خان پر قاتلانہ حملے کی خبر سن کر انہیں فوری طور پر پاکستان روانہ ہونا پڑا۔ اس فوری روانگی کی سب سے اہم وجہ ان کا بعض قومی اداروں اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خمان کے مابین مفاہمتی عمل کا وہ اہم کردار تھا جسے کسی حال میں وہ متاثر ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ عمران خان سے فوری ملاقات کے بعد انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ حقیقی لانگ مارچ کے اختتام سے قبل ملک و قوم کی بہتری اور سیاسی عمل کے استحکام کیلئے وہ ضرور کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے جلد انتخابات کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائیگا۔
چنانچہ جب وہ دوبارہ لندن آئے تو اسی تناظر میں میری ان سے ایک اور نشست ہوئی اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ وسطی لندن کے جس مقام پر ہم گفتگو کررہے تھے وہاں تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کا اپنے اوپر ہونیوالے قاتلانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ راولپنڈی میں اپنے حقیقی آزادی لانگ مارچ سے براہ راست خطاب بھی دکھایا جا رہا تھا۔ اعجازالحق سے میرا پہلا سوال نئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اورچیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل شمشاد مرزا کی سنیارٹی کی بنیاد پر تعیناتی کے حوالے سے تھا۔ اعجازالحق کا کہنا تھا کہ ہمارے دونوں جرنیلوں کی تعیناتی بلاشبہ ملک و قوم اور افواج پاکستان کے مورال کو مزید تقویت دینے کیلئے قومی مفاد میں ایک بہترین فیصلہ ہے۔ دونوں اعلیٰ جرنیل انتہائی پروفیشنل اور جدید عسکری امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر چونکہ راولپنڈی سے ہیں‘ ان سے ایک دو ملاقات بھی ہو چکی ہیں‘ مذہبی گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ اسی طرح جنرل شمشاد مرزا کی پروفیشنل آرمی لائف کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے Next of Kin کے خانے میں انہوں نے صرف اور صرف ’’پاکستان آرمی‘‘ لکھا ہوا ہے جس کا مطلب کہ انکے تمام تر اثاثے افواج پاکستان کیلئے وقف ہیں۔ یہ انکی افواج پاکستان سے حقیقی چاہت اور لگائو کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس سوال پر کہ
آپ کے والد جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم مذہبی تھے اور اب ایک طویل عرصہ کے بعد حافظ ِ قرآن جنرل عاصم منیر بطور آرمی چیف سامنے آئے ہیں۔ افواج پاکستان کا مورال کہاں تک بلند ہوگا؟ اعجاز الحق کا کہنا تھا کہ بلاشبہ افواج پاکستان میں قائم دینی رجحان کو مزید تقویت ملے گی۔ میرے والد جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے بھی افواج پاکستان کو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو دیا تھا۔ میری خواہش ہوگی کہ نئے چیف اس ماٹو کو افواج کی عملی زندگی کا حصہ بنا دیں۔ عمران خان اور بعض قومی اداروں میں مفاہمتی عمل بڑھانے کیلئے آپ پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسمبلیاں توڑنے کے انکے اعلان کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ میں نے اعجاز الحق سے پوچھا۔ میری دانست میں خان صاحب نے ملک کے سیاسی حالات کے تناظر میں ایک غیرمعمولی اور دانشورانہ فیصلہ کیا ہے۔ قوم مزید خون خرابے اور انارکی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔تاہم حکومت ِوقت کو اب یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ’’رجیم چینج‘‘ کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی لیڈر کو اگر بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے تو وہ صرف عمران خان ہیں۔ یہ صرف میں نہیں کہہ رہا مہذب دنیا کے ہر سیاسی حلقے کی آواز ہے۔ آخر میں آپ سے ایک ذاتی سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ زمانہ طالب علم میں آپ بھی پیتے رہے ہیں؟ ایک مذہبی گھرانے کا فرد ہونے کے ناطے ایسی حرکات آپ کیوں کرتے رہے؟ انہوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ آپ کا لفظ’’ پینے‘ داد طلب ہے کہ اس لفظ میں پائے گئے کسی بھی جھول سے مفہوم یکسر تبدیل ہو سکتا تھا۔بہر طور ۔ ہوا یوں کہ دوران تعلیم پرائمری سکول میں ایک دوست کے ساتھ مجھے بھی سگریٹ نوشی کی لت پڑ گئی۔ جو بھی حبیب خرچ ملتا اسے سگریٹوں پر ضائع کر دیتا اور پھر وہ وقت بھی آتا جب مجھے سگریٹ کے ’’ٹوٹے‘‘ پینے پڑتے۔ یہی وہ میرا ’’پینا‘‘ تھا۔ الحمدللہ! کئی برس سے سگریٹ نوشی اب ترک کر چکا ہوں‘ اس لئے مجھے کہنے دیں کہ اب میں نہیں پیتا۔