پاکستان پیپلزپارٹی کیا ہے؟ اس پر بہت کچھ سنا اور سنایا جا چکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کی سیاسی وراثت کی امین اس جماعت نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت سے طوفانوں کا سامنا کیا اور ہر طوفان کے کندن سے ایک نئی طلائی زندگی لے کر نکلی۔ بھٹو شہید پارٹی بناتے وقت نجانے کس عزم سے سر شار تھے کہ کارکنوں کی شہادتیں، آمروں کا جبر، پھانسیاں، جیلیں، گڑھی خدا بخش کے قبرستان کی آبادی غرضیکہ کون سا وار تھا جو اس پارٹی پر نہ ہوا۔ اس لشکر راہروانِ وفا کو کوئی بھی ہتھکنڈہ زیر نہ کر سکا بھٹو کی پھانسی نے پارٹی کو وہ جلا بخشی کہ جس نے بھٹو اور اس کی پارٹی کو نو مور کہا تھا وہ خود کہیں پس منظر میں چلا گیا لیکن پیپلز پارٹی موجود ہے اور بھٹو ازم زندہ ہے۔
90ءکی دہائی میں سیاسی ناخداﺅں نے جو کچھ کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، محترمہ کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا، حکومت دی گئی، اختیار نہیں دیا گیا۔ حلف برداری سے پہلے باقاعدہ کہا گیا کہ دفاع اور خارجہ امور آپ کے پاس نہیں ہوں گے حالانکہ انسانی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں کہ کسی پارٹی کو سیاسی حکمرانی تو مل گئی ہو لیکن اس کے ہاتھ کاٹ دیے گئے ہوں۔ بیس ماہ بعدالزامات کے ساتھ عوامی مینڈیٹ چھین لیا گیا، بار بار سازشیں ہوتی رہیں لیکن قربان جاﺅں جیالوں کہ اس لشکر وفا پر کہ انہوں نے جمہوریت کی اس شہزادی کو ہر بار غاصب سیاہ سے وہ فتح دلوائی کہ تاریخ بھی جمہوریت کے ان سپاہیوں کی وفا کو نہ بھول پائے گی۔ اس راہروانِ وفا کے لشکر کا ذکر کرتے ہوئے کسی حاکم کی مثال بھی روا نہیں لیکن ہیمیں پرویز مشرف کا وہ انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں 1971 میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے وقت فوج کے مورال کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ "اس شکست خوردہ فوج کو اگر کسی نے دوبارہ کھڑا کیا تو وہ بھٹو تھا"۔
جمہوریت دشمن قوتیں جب سیاسی میدان میں بھٹو کی بہادر بیٹی کو شکست نہ دے سکیں تو پھر ایک اور کھیل رچایا گیا۔ وفاق کی علامت، جمہوریت کی عظمت، بھٹو کی وارث، عالمی سطح پر پاکستان کی سب سے موثر آواز اور دنیا کی با اثر ترین خواتین میں شامل اس عظیم راہنما کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جلاوطنی کے بعد 18 اکتوبر کو جب شہید محترمہ نے پاک دھرتی پر قدم رکھے تو بزدل جمہوریت دشمن نے چھپ کر وار کیا۔ 100 سے زائد جیالوں نے سکیورٹی حصار کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے اپنی جانیں وار دیں لیکن اپنی رانی پر آنچ نہیں آنے دی۔ دشمن کا خیال تھا کہ بہتا ہوا خون، گرتے ہوئے لاشے اور بم دھماکے شہید رانی کو ڈرا دیں گے لیکن وہ بھٹو کے خون کی حرارت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ دھماکے کے اگلے دن شہید رانی اپنے شہید محافظوں کے گھروں کے دورے کر آئی تھی۔
آمر نے ججوں کو پابند سلاسل کر رکھا تھا، محترمہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے گھر کے باہر جا پہنچیں۔ 27 دسمبر کو بزدل دشمن نے جمہوریت کی اس علامت کو ابدی نیند سلا دیا لیکن فکر ِ حریت کی وہ تحریک جو اس دھرتی بے خانمان کو بھٹو نے اپنی جان دے کر دی تھی اسے ختم نہیں کر پایا۔ جب پورے پاکستان میں لوگ محترمہ کی شہادت پر غصے میں آپے سے باہر تھے ایسے میں مردِ حر نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر پاکستان سے محبت کا ثبوت پیش کر دیا۔ بھٹو کا نواسہ اور شہید محترمہ کا لختِ جگر جمہوریت کا علم تھامے میدان میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے کل اپنا 56واں یومِ تاسیس منا یا اس پارٹی کی مضبوطی کے لیے اس کی قیادت نے جو لہو پیش کیا وہی اس کی بقا اور طاقت کا ضامن ہے، جیالوں کی اپنی پارٹی سے وابستگی کی مثال پاکستان کے سیاسی کلچر میں ملنا ناممکن ہے۔