مولانا اجمل خان مرحوم باعمل عالم دین

عبدالعزیز قریشی

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ہمارے علماءکرام نے تازیست دین مبین کی سربلندی اور سرفرازی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ہے جس کا نتیجہ واضح ہے کہ عوام الناس اتنے طویل عرصے کے باوجود ان کی دینی خدمات کا اپنی محافل میں ذکر خاص کرتے ہیں اور امید واثق ہے کہ یہ ذکر تا روزحشر جاری و ساری رہے گا۔ ایسے علماءکرام میں سے ایک مولانا اجمل خان صاحب گزرے ہیں جو کہ عالم باعمل اور عالم بے بدل تھے۔ درویشی انکا اوڑھنا بچھونا تھا۔ امراءسے دوری اور غربا سے قربت بھی ان کی پہچان تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کو دین متین کی سربلندی اور سرفرازی کے لیے وقف کر دیا تھا اور عوام الناس انہیں اسلام کا سپاہی قرار دیتے تھے۔ راقم الحروف نے انہیں بہت سنا ہے اور ان کے منبر کے قریب بیٹھ کر سنا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان کے جمعہ کے خطبات کے الفاظ ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود میرے جانوں میں گونج رہے ہیں اور تازیست گونجتے رہیں گے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ انگریزی خواں تم پکڑے جاؤ گے، تم نے انگریزی بڑے انہماک سے پڑھی مگر قرآن کو غور سے نہ پڑھا۔ دنیاوی مفادات سے دوری بھی ان کی پہچان ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کو جنرل ضیاءصاحب سابق صدر پاکستان کی جانب سے شاہی مسجد کی خطابت کی پیش کش ہوئی مگر آپ نے انکار کر دیا۔
علاوہ ازیں ایک اور روایت کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب جناب غلام حیدر وائیں صاحب آپ سے ملنے کے لئے آپ کی مسجد میں تشریف لائے مگر آپ نے ملنے سے انکار کر دیا۔
علاوہ ازیں1977ءکی تحریک اسلامی میں ان کی شرکت قابل ذکر، قابل تعریف اور قابل توصیف ہے۔ دوران تحریک ان کے خطابات کی آواز آج بھی لاہور کے درودیوار میں گونج رہی ہے اور تاروز حشر گونجتی رہے گی۔ غالباً1992ءمیں بیماری نے گھیر لیا اور کچھ عرصہ بیماری میں مبتلا رہنے کے بعداس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے، ان کا جنازہ لاہور کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔

ای پیپر دی نیشن